تحرير : محمد لقمان
حال ہي ميں وزير اعلي شہباز شريف نے صوبہ پنجاب ميں صاف پاني کي فراہمي کي ذمہ دار کمپني کے اعلي حکام کو نااہلي اور اہداف پورے نہ کرنے پر معطل کرديا۔کمپني کے سربراہ جن کے پاس سينکڑوں ارب روپے کے منصوبے بنانے کا اختيار تھا۔ کي تعليم نہ تو انجينرنگ تھي ، نہ ہي پاني سے متعلقہ تجربہ تھا۔ بس ايک ہوشيار بيوروکريٹس ضرور تھے۔ پچھلے آٹھ سالوں ميں پنجاب ميں ايسي درجنوں کمپنياں قائم کردي گئي ہيں۔ جو کوڑا کرکٹ، پارکنگ اور ديگر شعبوں کي ترقي کي ذمہ دار ہيں۔ مگر ان کے ہاتھوں ابھي تک کوئي ايسا کارنامہ نہيں ہوا۔ جس کي وجہ سے صوبہ پنجاب ميں معاشي يا معاشرتي انقلاب آيا ہو۔ بظاہر سرکاري ۔نجي شعبے کي شراکت پر مبني کمپنيوں کي تشکيل کا آغاز سابق فوجي حکمران پرويز مشرف کے دور ميں ہوا۔ معاشي ترقي کے بہانے وزارت صنعت و پيداوار نے مختلف صنعتي شعبوں کے لئے الگ الگ کمپنياں قائم کيں۔ لائيو اسٹاک اور دودھ کے شعبے کے لئے ڈيري ڈويلپمنٹ کمپني، ٹيکنالوجي کے لئے ٹسڈيک، زيورات کے لئے جيمز اينڈ جيولري کمپني ، فرنيچر پاکستان اور اسي قبيل کے درجنوں ادارے کھڑے کرديے گئے۔ چند ماہ تک تو ان کمپنيوں کے سربراہ نجي شعبے سے رہے۔ اور کچھ منصوبے کاميابي سے سے مکمل ہوگئے۔ مگر بعد ميں بيوروکريسي کي للچائي نظرِيں ان اداروں کے وسائل پر پڑني شروع ہو گئيں۔ پہلے چيف ايگزيکٹوز کي تمام آسامياں بيوروکريٹس اور حکمرانوں کے رشتہ داروں نے پر کيں۔ بعد ميں ديگر پوزيشنز بھي آہستہ آہستہ بيوروکريسي کے پاس چلي گئيں۔ اٹھارھويں اور انيسويں سکيل کے افسران جو سرکار ميں ايک لاکھ روپے سے بھي کم ماہانہ تنخواہ لے رہے تھے۔ ان اداروں ميں چار سے چھ لاکھ روپے کي تنخواہوں پر بھرتي ہوگئے۔ يہ افسران ملکي ملکي معيشت کي بہتري کے لئے تو کچھ نہ کرسکے۔ البتہ ان کمپنيوں کے لئے امر بيل ضرور ثابت ہوئے۔ جب ان کمپنيوں کے حالات خراب ہوئے تو ڈوبتے جہاز سے چھلانگ لگا کر اپني سرکاري نوکريوں ميں چلے گئے۔ آج وفاقي حکومت کے زير انتظام اکثر کمپنياں يا تو بند ہو گئي ہيں يا مالي طور پر برے حال ميں ہيں۔ مگر ان ديہاڑي دار بيوروکريٹس کو ابھي تک جيل کي پيچھے نہيں بھيجا جاسکا۔ سابق صدر پرويز مشرف پر تنقيد کرنے والي نواز شريف حکومت نے وفاقي اور صوبائي سطح پر بجائے اس تباہي سے سبق لينے کے ، ايسي مزيد کمپنياں اور ادارے قائم کرديے ہيں۔ پنجاب ميں تو صاف پاني کمپني اب شمالي پنجاب کے لئے الگ ہے اور جنوبي کے لئے الگ۔ لاہور کے بعد ملتان اور فيصل آباد ميں بھي کوڑا کرکٹ اٹھانے اور تلف کرنے کے لئے الگ الگ کمپنياں بنا دي گئي ہيں ۔ اب تو پنجاب ميں تعليم اور صحت کے لئے بھي نئي کمپنياں بنائي جارہي ہيں۔ ان نئے بظاہر آزاد کمپنيوں کے سربراہ بھي بيوروکريٹس ہي ہوں گے۔ جن کي تعليم بھي عمومي ہے اور تجربہ بھي۔ اس کے باوجود حکومت ان سے معجزوں کي توقع رکھتي ہے۔ آٹھ سال کے بعد بننے والے بلدياتي اداروں کي کارکردگي بھي ان کمپنيوں کي وجہ سے متاثر ہوسکتي ہے۔ جب صاف پاني، کوڑا کرکٹ، تعليم اور صحت کے شعبے بھي آزاد اداروں کے پاس ہوں گے تو ان بلدياتي اداروں کے نظام کو بحال کرنے کا کيا فائدہ ہے۔ لارڈ ميئر اور ڈپٹي ميئرز تو صرف غير ملکي مہمانوں کے لئے شہري استقباليے کا اہتمام ہي کرسکيں گے اور عوام پہلے کي طرح ہي اپنے مسائل کا رونا روتي رہے گي۔ کاش کہ ان کمپنيوں پر خرچ ہونے والے اخراجات شہروں ميں ہسپتال، تعليمي اداروں اور صاف پاني کے منصوبوں پر حکومت بلدياتي اداروں کے ذريعے خرچ کرے تاکہ غير ملکي قرضہ افسروں کے اللوں تللوں پر خرچ نہ ہو۔