تحریر: محمد لقمان
پچھلے سولہ سالوں ميں سوائے 2001 کے، ہر سال مون سون کے سيزن ميں دو کروڑ سے پانچ کروڑ ايکڑ فٹ تک پاني بحيرہ عرب کي نذر ہورہا ہے۔ مون سون کے موسم میں تقریباً اتنا ہی پانی پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں فصلوں کو نقصان پہنچانے اور انسانوں کی جانیں لینے کے بعد بکھر جاتا ہے۔۔1991 کے پاني کي تقسيم کے بين الصوبائي معاہدے کے مطابق مون سون کے دوران ايک کروڑ ايکڑ فٹ پاني سمندر ميں پھينکنے کي اجازت ہے۔۔ اوسطاً 500 ملي ميٹرز سالانہ بارش والے ملک ميں پاني کے ذخيرے کے لئے صرف دو بڑے ڈيم ہيں۔۔1976 ميں تربيلا ڈيم کي تعمير کے بعد ملک ميں سياسي اور اقتصادي وجوہات کي بناء پر کسي نئے ڈيم کي تعمير نہيں ہوسکي۔اس سلسلے ميں فوجي اور سياسي حکومتوں ميں کوئِي تفريق نظر نہيں آتي۔۔دريائے سندھ پر مجوزہ ديا مير بھاشا ڈيم کا تين مرتبہ سنگ بنياد رکھا جاچکا ہے۔۔مگر زمين کي خريداري سے آگے ابھي بات نہيں بڑھ سکي۔۔داسو ڈیم کا معاملہ کچھ آگے بڑھا تھا اور نواز شریف نے اس کی تعمیر کا افتتاح 10 جولائی کو کرنا تھا۔ مگر عدالت عظمی کے ہاتھوں ان کی نااہلی کے بعد اس ڈیم کا آغاز بھی دیر سے متوقع ہے۔ بونجي ڈيم بھي صرف کاغذوں ميں ہي نظر آتا ہے۔۔ڈيم نہ ہونے کي وجہ سے جہاں ملک ميں زرعي زمينوں کي آبپاشي کا مسئلہ رہتا ہے۔۔وہيں سستي بجلي کي پيداوار بھي نہيں بڑھ رہي۔۔اس وقت ملک ميں بجلي کي پيداوار کي کل صلاحيت 20 ہزار ميگاواٹ کے قريب ہے۔اس ميں سے 6 ہزار 600 ميگاواٹ بجلي ڈيموں کے ذريعے پيدا کي جاتي ہے۔ اور باقي بجلي فرنيس آئل اور ڈيزل جيسے مہنگے ايندھن سے پيدا ہوتي ہے۔۔توانائي کے ماہرين کے مطابق گلگت بلتستان اور کشمير ميں پاني کے اتنے وسائل ہيں کہ صرف ان سے 40 ہزار ميگاواٹ بجلي پيدا ہوسکتي ہے۔ دريائے سندھ اور ديگر درياوں پر ڈيم اور بيراج تعمير نہ ہونے کي وجہ سے ہر سال سيلابي پاني لاکھوں ايکڑ پر فصلوں کو تباہ کرنے کے علاوہ سينکڑوں افراد کي ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔۔سيلاب کا زور توڑنے کے لئے چين اور بھارت جيسے ممالک ميں سينکڑوں بڑے ڈيم تعمير کيے گئے ہيں۔۔چين کا تھري گورجز پن بجلي منصوبہ اس کي مثال ہے۔۔ايک طرف تو پاکستان ميں سيلابي ريلوں کي صورت ميں کروڑوں ايکڑ فٹ پاني سمندر ميں چلا جاتا ہے۔۔تو دوسري طرف پچھلے پچاس سالوں ميں پاني کي سالانہ في کس دستيابي 5000 ہزار مکعب ميٹر سے کم ہوکر 1000 مکعب فٹ تک رہ گئي ہے۔۔ اور زير زمين پاني کي سطح بھي مسلسل گر رہي ہے۔۔۔جس کي وجہ سے ٹيوب ويل اور نلکوں کے ذريعے پاني کا حصول بھي مشکل ہوگيا ہے۔۔بھارت، سري لنکا اور جنوبي افريقہ جيسے ممالک ميں بارش کے پاني کو زير زمين ذخيروں کو ريچارج کرنے کے لئے بروئے کار لايا جاتا ہے۔۔جس کے لئے شہروں سے باہر تالاب اور جھيليں بنا دي جاتي ہيں۔۔ اور گھروں کي چھتوں پر بارش کے پاني کو ذخيرہ کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے حوض بنا ديے جاتے ہيں۔۔اس پاني کو گھريلو ضروريات کے لئے استعمال کيا جاتا ہے۔۔جس سے سرکاري پاني پر انحصار کم ہو جاتا ہے۔۔ پاکستان ميں برسات کے مہينوں ميں ہونے والي بارشوں کے پاني کو مزيد ڈيموں کي تعمير اور رين ھارويسٹنگ کے مختلف طريقوں کو اپنا کر استعمال کيا جاسکتا ہے۔۔اس کے لئے صرف ايک ہي شرط ہے کہ پاني کو ايک سياسي مسئلے کي بجائے تيکنيکي نکتہ نظر سے ديکھا جائے۔