سچ یہ بھی ہے۔۔۔ایک سمندری طوفان نے پاکستان کا جغرافیہ بدل دیا

0
710


تحریر: محمد لقمان

اس وقت سن دو ہزار بائیس کے اگست میں ملک کے ہر حصے میں بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بلوچستان ، سندھ ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خوا کے اکثر علاقے زیر آب ہیں۔ ایک ہزار کے قریب پاکستانی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ مگر ہمارے سیاستدانوں کو پانی میں ڈوبے ہوئے دیہات اور شہر نظر نہیں آرہے۔ ہر کوئی اپنی سیاست بچانے کے لئے ہاتھ پاوں مار رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ ان سیاستدانوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ مگر وہ نیرو کی طرح بانسری بجا رہے ہیں ا ور ان کو سیلاب اور بارشوں سے گرتے گھر ، ڈوبتے انسان ، تباہ ہوتی فصلوں کا بالکل اندازہ نہیں۔ ان کو نہیں پتہ کہ کوئٹہ، کراچی جیسے بڑے شہر اور چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبے کئی دنوں سے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مواصلاتی نظام متاثر ہونے سے ملک کے مختلف علاقے ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں۔ ان حالات میں بھی سیاسی جلسے جاری ہیں۔ ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے داو پیچ لگائے جارہے ہیں۔ بیرونی دوروں کا بھی دور دورہ ہے۔ ایسے ہی مناظر نصف صدی پہلے بھی نظر آئے تھے۔ جب ملک آبادی کے لحاظ سے حجم دگنا تھا اور ایک ایسا علاقہ بھی پاکستان کا حصہ تھا۔ جسے اب بنگلا دیش کہتے ہیں۔ یہ نومبر انیس سو ستر کی بات ہے۔ جب خلیج بنگال میں ایک سمندری طوفان (سائیکلون ) آیا ۔ جب وہ تیرہ نومبر کو چٹاگانگ اور دیگر ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تو پانی کی ایک بیس فٹ اونچی چادر نے مشرقی پاکستان کے اکثر علاقوں کو ٖ ڈھانپ لیا۔ تیرہ جزیرے اور ان پر آباد افراد مکمل صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ مشرقی پاکستان میں کل پانچ لاکھ کے قریب افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں سے ایک لاکھ سے زائد افراد تو صرف بھولا نامی علاقے میں جاں بحق ہوئے۔ اسی لیے اب بھی اس طوفان کو بھولا سائکلون کے نام سے پکارا جاتا ہے اور اس کو دنیا میں آنے والے سب سے زیادہ تباہ کن سمندری طوفانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تقریباً پچاس کروڑ ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی کا اکثر حصہ بری طرح متاثر ہوا تھا۔ اس وقت بھی ہمارے رہنماوں خاص طور پر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور فوجی حکمرانوں کا غیر سنجیدہ اور غیر ہمدردانہ رویہ تھا۔ اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے مشرقی پاکستان میں آنے والے سمندری طوفان کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ مقامی حکومت اور وفاق کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں سستی دکھائی گئی اور غیر ملکی اداروں نے ان تھک محنت کرتے ہوئے سینکڑوں جانیں بچائیں۔ مشرقی پاکستان کی عوام کو اس رویے سے بہت رنج اور دکھ تھا۔ پاکستان کے صدر جنرل یحیی خان کا اس موقع پر کتنا غیر سنجیدہ اور نمک پاش رویہ تھا۔ اس کے بارے ان کے ساتھ مشرقی پاکستان جانے والے ایک صحافی نے کچھ یوں لکھا ہے،: کہ وفاقی سیکرٹری اطلاعات روئیداد خان نے مغربی پاکستان کے اخباری رپورٹروں کو ڈھاکا پہنچانے اور امدادی کاموں کی کوریج کے لیے سرکاری تعاون کی پیش کش کی۔ صدر یحییٰ خان نے کھلنا سے چٹاگانگ اور پھر لاشوں کا انبار بننے والے جزیرے بھولا کا زمین پر اترے بغیر اپنے فالکن طیارے سے ایک بار فضائی جائزہ لیا، امدادی کاموں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ایئرپورٹ پر اپنے ہی ساتھ آئے رپورٹروں سے بات چیت کرتے ہوئے یقین دلایا کہ پاکستانی ایک خوددار قوم ہیں اور ایسے مصائب سے نپٹنے کی پوری صلاحیت اور وسائل رکھتے ہیں۔ حکومت عام آدمی کو مایوس نہیں کرے گی۔ اس کے بعد وہ مہمان رپورٹروں سمیت راولپنڈی پرواز کر گئے . یہ تھا زبانی جمع خرچ ۔ بائیں بازو اور علیحدگی پسند جماعتوں نے عوام کی تکلیف پر اپنا بیانیہ بنا یا اور مغربی پاکستان کو غاصب اور لاپرواہ قرار دیا۔ اس کا نتیجہ سات دسمبر انیس سو ستر کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کی ایک سو باسٹھ میں سے ایک سو ساٹھ سیٹیں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو ملنے کی صورت میں سامنے آیا۔ انتخابات کے بعد معاملات کو سنبھالنے کا ایک اور موقع مل سکتا تھا کہ مغربی پاکستان کے سیاست دان اکثریت والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کردیتے۔ مگر ایسا نہ ہوا اور ملک دو لخت ہوگیا۔اس ساری کہانی کا سبق یہ ہے کہ قدرتی آفات سیاست و ریاست سے مسائل سے نمٹنے کو قوت چھین لیتی ہیں۔ لہٰذا کسی بھی قدرتی آفت کو غیر سیاسی سمجھنے والوں کے لئے بہتر ہے کہ ماضی کی حقیقتوں سے آنکھیں نہ چرائیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here