تحریر: محمد لقمان
لاہور میں ان دنوں بہار کا موسم اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے پودوں کے پتے جھلس رہے ہیں تو پھول بھی کھل نہیں پارہے۔ ان دنوں اگر کوئی درخت اپنے زرد مہکتے پھولوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا مقابلہ کر رہا ہے تو وہ املتا س کا درخت ہے۔ اس درخت کی اہم بات یہ ہے کہ اس پر پھول اور پھلیاں موسم بہار ختم ہونے پر آتی ہیں اور مون سون کے آغاز کے ساتھ ہی اس کا حسن اجڑ نا شروع ہوجاتا ہے۔ اس سال تو املتا س کی اہمیت تو اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ہر کوئی کورونا کی وبا کے دنوں میں عجب سی یاسیت کا شکار ہے۔ ان دنوں اگر کسی درخت کو پھولوں سے لدے دیکھ کر زندگی کی ایک امید پیدا ہوجاتی ہے۔ تو وہ املتا س کا درخت ہے۔ اس کے پھولوں کی مسحور کن خوشبو سے ہر کوئی حظ اٹھاتا ہے۔ پھولوں کے علاوہ جب اس پر پھلیاں لگتی ہیں تو ان کی اپنی ہی شان ہوتی ہے۔ کیکر اور شریں کی پھلیاں تو باریک اور چند انچ لمبی ہوتی ہیں۔ مگر املتاس کی پھلی تو کسی طور بھی دو فٹ سے کم نہیں ہوتی۔ پکنے پر یہ پھلیاں پہلے گہرے براون اور بعد میں کتھئی رنگ کی ہو جاتی ہیں۔ جب ہوا چلتی ہے تو ان کے ٹکرانے سے ایک عجب جلترنگ ہوتی ہے۔ ماہرین طب کے مطابق یہ پھلیاں دیمگ بھگانے کی تاثیر کی مالک ہوتی ہیں۔
ماہر ین نباتات کے مطابق املتاس نیپالی زبان کا لفظ ہے مگر اب یہ درخت ھندی، اردو اور پنجابی میں بھی اسی نام سے جانا جاتا ہے۔املتاس برصغیر کے طول و عرض میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے بہت سے نام ہیں جو اس کے سراپے اور خواص کی بنا پر دئے گئے ہیں، جیسے کہ سنسکرت کے نام ارگ وادھا یعنی بیماریوں کو مارنے والااور راجا تارو یعنی درختوں کا بادشاہ۔ بنگالی میں اس کا ایک نام بندر لاٹھی بھی ہے جو اس کے لمبے پھل کی وجہ سے ہے۔تھائی لینڈ میں املتاس اس قدر مقبول ہے کہ اسے قومی درخت کا درجہ دیا گیا ہے۔ جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں املتاس کے پھول کو ریاست کا نشان بنایا ہے۔یہ شاید قدرت کے اس حسین شاہکار سے ان کی عقیدت کا اظہار ہے۔عام حالات میں اس کا قد 35سے 40 فٹ تک ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی بہت موافق حالات کے زیراثر یہ60 فٹ تک بھی اونچا جا نکلتا ہے۔اس کی بڑھوتری بہت ہی تیز رفتار ہوتی ہے، ایک سال میں کوئی ڈیڑھ سے دو میٹر، یعنی 4 سے 6فٹ سالانہ، صرف تین سال کی قلیل مددت میں ہی ایک 15 سے 17فٹ کا بھرپور درخت آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ اس پر پت جڑ کا عرصہ بہت قلیل ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی اسے سدا بہار نہیں کہا جاسکتا۔
املتاس زمانہ قدیم ہی سے صحت کے لئے مفید قرار دیا گیا ہے۔ حکما کے مطابق اس کے پھل پتے جڑیں اور تنے سب ہی بے پناہ افادیت کی حامل ہیں مثلاً فالج کے مریضوں کے لئے پتوں کا رس اور مالش مفید ہے اس کے علاوہ پتے سوجن درد اور حدت دور کرتے ہیں زکام میں املتاس کی جڑیں جلا کر اس کا دھواں سونگھنے سے فاسد مادے خارج ہو جاتے ہیں کھانسی سے نجات کے لئے املتاس کی پھلی سے سیاہ ٹکیاں نکال کر چوسنے سے افاقہ ہوتا ہے بچوں کو اگر اپھاڑے کی شکایت ہو جائے تو اس کا گودا پیس کر عرق بادیاں میں ملا کر ناف کے چاروں طرف اور پیٹ کے نچلے حصے پر لیپ کرنے سے آرام و سکون ملتا ہے ریاح کی تکلیف میں مبتلا بچوں کے لئے املتاس کا گودا ناف کے گرد باندھنے سے شفا ملتی ہے السی یا بادام کے تیل میں ملا کر پیٹ پر مالش کرنے سے پاخانہ جاری ہو جاتا ہے املتاس کا گودا زبان کی حس ذائقہ ختم ہونے پر بہت مفید ہے اس کیفیت کے لئے 24 گرام گودے کا ایک چوتھائی گرم دودھ میں ملا کر ماؤتھ واش کرنے سے افاقہ ہوتا ہے۔
مال روڈ سمیت لاہور کی اکثر پرانی سڑکوں پر پایا جانے والا املتاس کا درخت آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ بلدیاتی اداروں کی طرف سے ترقی کے نام پر مقامی درختوں کی کٹائی اور ان کی جگہ پر بغیر پھل اور سایہ والے بدیشی درختوں ا ور پودوں کی کاشت ہے۔ ایسی ہی صورت حال پنجاب کے دیگر علاقوں میں بھی نظر آتی ہے۔ لاہور ۔ اسلام آباد موٹروے کے دونوں اطراف سفیدہ یعنی یوکلپٹس کا درخت عام نظر آتا ہے۔ املتاس سمیت کوئی بھی مقامی درخت ایک بہتر متبادل بن سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سفیدے کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ضیاع سے روکنے میں مدد ملے گی بلکہ گرمیوں کی تپتی دوپہر میں ایک شجر سایہ دار بھی مل سکتا ہے۔
.