تحریر: محمد لقمان
ان دنوں لاہور کے پوش علاقوں کے اکثر گھروں کے باغیچوں میں ایک ترشاوہ پھل کا پود ا نظر آتا ہے۔ سرسری طور پر دیکھا جائے تو پھلوں کے خاص رنگ اور شکل کی بنا پر اس پر لوکاٹ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ مگر وہ کسی طور پر بھی لوکاٹ نہیں۔ بلکہ چین اور جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والا پودا کمکاٹ کہلاتا ہے۔ چینی زبان میں کمکاٹ کے معنی سنہری سنگترے کے ہیں۔ مگر یہ کسی طور پر بھی سنگترہ نہیں۔۔دیگر ترشاوے پھلوں کے برعکس کمکاٹ کا چھلکا میٹھا جبکہ گودا ترش ہوتا ہے۔ اس پودے کا قد چار سے پانچ میٹرز کا ہوتا ہے۔ پتے گہرے سبز جبکہ پھول سبز رنگ کے ہوتے ہیں۔
لاہور کے جنوبی علاقے او پی ایف ہاوسنگ سوسائٹی کی رہائشی سیما خلد کا کہنا ہے کہ جب نومبر دسمبر میں اس پودے پر پھل آتے ہیں تو ایک عجب منظر ہوتا ہے۔
ماہرین اثمار کے مطابق کم کاٹ کا ذکر چین کے بارے میں بارھویں صدی کی تاریخ سے بھی ملتا ہے۔ مگر بعد میں یہ پھل دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گیا۔اب یہی پھل یورپ ، جنوب مشرقی ایشیا، جاپان اور حتی کہ بھارت میں بھی کامیابی سے کاشت کیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کی کاشت کئی سال سے جاری ہے۔ مگر تجارتی اقسام تیار نہ ہونے کی وجہ سے ا س کی قلمیں اور پودے نرسریوں پر دستیاب نہیں۔ چیرمین پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل ، ڈاکٹر غلام محمد علی کے مطابق اس پھل کی پاکستان کی آب و ہوا کے مطابق نئی اقسام کی تیاری پر کام ہو رہا ہے۔ بہت جلد اس کی تجارتی بنیادوں پر کاشت شروع ہو جائے گی۔ ماہرین اغذیہ کے مطابق یہ پھل غذائی لحاظ سے کسی طور پر بھی سٹرس خاندان کے دیگر ارکان بشمول لیموں اور سنگترے سے پیچھے نہیں۔ ایک سو گرام کمکاٹ پھل کے اندر سولہ گرام تک کاربوھائڈریٹس، دس گرام فرکٹوز کے علاوہ وٹامنز خصوصاً وٹامن سی اور وٹامن بی کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فولاد، میگنیشیم ، فاسفورس، پوٹاشیم ، سوڈیم اور جست بھی اس میں موجود ہوتا ہے۔ اس کو دیگر ترشاوہ پھلو ں کی طرح براہ راست کچی حالت میں کھا یا جاسکتا ہے۔۔۔اس کے علاوہ سلاد ، جیلی ، مارملیڈ ، ملک شیک اور آئس کریم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پھل کی تجارتی اقسام تیار ہونے پر یہ کاشتکاروں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کمکاٹ سے پہلے پاکستان میں ایووکاڈو، پپیتا اور کیوی جیسے غیر ملکی پھلوں کی کامیاب کاشت ہو چکی ہے۔