خارزار صحافت۔۔۔قسط بانوے

0
944

نیلم اور جہلم کا ملن

تحریر: محمد لقمان

اگرچہ قانون ساز  اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو پریس گیلری سے کور نہ کرنے کا دکھ بہت تھا ۔ مگر  مظفر آباد شہر کی سیر بھی بہت ضروری تھی۔ بیگم اور بچی کو نیلم ویو ہوٹل سے لیا اور ایک رکشا میں سوار ہو کر اس سترھویں صدی میں آباد ہونے والے شہر کو دیکھنے کے لئے چل پڑے۔ رکشے کا ڈرائیور بڑا ہی خوش اخلاق ثابت ہوا۔ شاپنگ  کرنے کے لئے  بازار جانے کو کہا تو وہ شہر کے قدیمی بازار  لے گیا۔ جیسے پہاڑی علاقوں کے بازار  ہوتے ہیں۔۔اسی طرح کا یہ  بازار  محسوس ہوا۔ فروخت ہونے والی اشیا  خاص طور پر لکڑی کی بنی ہوئی آرائشی  سوغاتوں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ایسا سامان تو مری یا ایوبیہ سے بھی خریدا جاسکتا ہے۔ عزیز و اقارب کے لئے کچھ تحائف خریدے تو دوبارہ شہر کے مختلف حصے دیکھنے چلے گئے۔  رکشہ ڈرائیور میں سیاسی سوجھ بوجھ بھی کافی تھی۔ گفتگو کرتے ہوئے ایک دم مسلم کانفرنس کی قیادت پر تنقید کرنے لگا ۔ کہنے لگا کہ سردار عبدالقیوم خان اور سردار سکندر حیات خان سیاسی طور پر  تو ایک دوسرے کے حریف بن گئے ہیں۔ مگر عوام کی نظروں سے دور سالہ بہنوئی جیسے دوستی ہے۔ یہ فقرہ سن کر مجھے ہنسی آگئی۔ ایسی صورت حال تو ہمیں  مذہبی رہنماوں میں بھی نظر آتی ہے۔ جو عوام کو ویسے لڑاتے رہتے ہیں مگر نجی تقریبات میں شیر وشکر ہوتے ہیں۔ شہر کو دیکھنے کے بعد دومیل جانے کا فیصلہ کیا۔ مظفر آباد کے نواح میں دومیل وہ جگہ ہے جہاں دریائے نیلم دریائے جہلم  میں مل جاتا ہے۔ قائد اعظم  برج کے پاس  سنگم  ہوٹل موجود تھا۔ دومیل کے مقام پر سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دونوں دریاوں کے ملن کو دیکھنے کے لئے گئے تو ایک عجب احساس تھا۔ دریائے نیلم کا صاف شفاف پانی دریائے جہلم کے مٹیالے پانی میں شامل ہورہا تھا۔ ایسا منظر میں نے پہلے ضلع جھنگ میں تریموں کے مقام پر دیکھا تھا۔ جہاں نسبتا صاف پانی والا دریائے جہلم دریائے چناب کے مٹیالے پانی میں آملتا ہے۔ جون کے مہینے میں دریا کے کنارے ایک راحت کا احساس ملا تھا۔ آدھ گھنٹے کے قریب دو میل کے مقام پر رہے اور اس کے بعد واپس ھوٹل نیلم ویو آگئے۔ شام کو  دریائے نیلم کے کنارے دوبارہ گئے ۔ چہل قدمی کی۔ اسی دوران  مظفر آباد میں اے پی پی کا نمائندہ سجاد آگیا۔ وہ اپنے ساتھ کشمیری قلچوں کا ایک بڑا سا تھیلا لے کر آیا تھا۔ جو کہ باقر خانی سے کافی ملتے جلتے تھے۔ سجاد نے یہ اصرار بھی کیا کہ وہ اگلی صبح  اسلام آباد جانے والی بس  میں خود  چھوڑ کر آئے گا۔ سجاد کے جانے کے بعد ہم نے سامان پیک کیا کیونکہ اب مظفر آباد کو خدا حافظ کہنے کا وقت آگیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here