سچ یہ بھی ہے۔۔۔سیاست کے گھنٹہ گھر

0
92

تحریر: محمد لقمان

فیصل آباد ( سابق لائلپور) کی پہچان ایک صدی سے بھی پہلے تعمیر کیا گیا تاریخی گھنٹہ گھر یا کلاک ٹاور ہے۔ برطانوی جھنڈے یونین جیک کی طرز پر تعمیر کیے گئے آٹھوں بازاروں میں کسی ایک کے ذریعے بھی جائیں تو سامنے آپ کو گھنٹہ گھر ہی نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمارت کو ہمیشہ سے ایک سیاسی یا سماجی مرکزیت کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور میں 1962 کا آئین بنایا گیا تو اس پر پہلا تبصرہ یہ تھا کہ اس آئین میں صدر کی حیثیت لائل پور کے گھنٹہ گھر کی طرح ہے ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں تو اتنی زیادہ مرکزیت ہے کہ ہر جماعت کا بانی رہنما یا ان کی اولاد گھنٹہ گھر کی طرح کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے معاملے کے لئے باقی قیادت اور کارکنوں کو ان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ پارٹی کے قیام کے بعد بانی سربراہ تو عہدے پر برقرار رہتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی شرائط پوری کرنے کے لئے پارٹی کے انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن بانی سربراہ کے مقابلے میں آنے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا۔ قیام پاکستان کے شروع کے دنوں میں قائد اعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے آئیڈیل  ادوار کے بعد ملکی سیاست میں صرف مرکزیت اور موروثیت ہی نظر آتی ہے۔ ان کے بعد  جو کوئی بھی حکمران آیا اس نے ایک برگد کے درخت کی طرح اپنے نیچے کسی اور پودے کو اگنے نہیں دیا۔ یوں ہمیشہ اس رہنما کی وفات یا عہدے سے ہٹنے کے بعد ایک سیاسی خلا پیدا ہوا۔ فوجی ادوار کے اپنے مسائل تھے۔ سویلین حکمرانوں کے دور میں بھی ایسی صورت حال ہی نظر آتی رہی۔ 1966 میں قائم ہونے والی عوام کی ترجمانی کی دعوے دار پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بینظیر بھٹو اور بعد میں داماد آصف علی زرداری اور نواسے بلاول بھٹو کے پاس رہی ہے۔ مسلم لیگ نواز گروپ کی 1990 میں دہائی میں تشکیل کے بعد قیادت میاں محمد نواز شریف کے پاس ہی ہے۔ اس دوران تمام ترحالات بدلنے کے باوجود تمام تر فیصلوں کے لئے ابھی بھی میاں نواز شریف کی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے۔ انصاف کی پرچارک پاکستان تحریک انصاف کے 1996 میں قیام کے بعد 28 سالوں میں بطور چیرمین اور بعد میں بطور سابقہ چیرمین عمران خان ہی عملی طور پر اس کے سربراہ رہے ہیں اور فیصلے ان کی مرضی سے ہی ہوتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی میں بھی خان عبدالولی خان کے بعد اسفند یار ولی اور ایمل ولی کے پاس قیادت ہے۔ صرف جماعت اسلامی میں ہی انتخابات کے ذریعے قیادت تبدیل ہوتی ہے اور نیا امیر آتا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت اور بنگلادیش میں بھی ایسے ہی حالات ہی نظر آتے ہیں۔ مگر امریکہ ، یورپ اور جاپان میں جمہوریت کی اصل روح دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں فیصلے اجتماعی دانش سے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں سارے اختیارات اور طاقت چیرمین یا سربراہ کے پاس ہونے کی وجہ سے فیصلہ سازی کا عمل مشاورت سے نہیں ہوتا ۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں ملکی مسائل کے حل کی بجائے ان کو پیداکرنے کا سبب بنتی ہیں۔  

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here