مشرف نے جب صوفی ازم کا سہارا ڈھونڈا
تحریر: محمد لقمان
یہ دس نومبر دو ہزار چھ بروز جمعہ کی ایک خوشگوار شام تھی۔ لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد کے باہر حضوری باغ میں صوفیانہ محفل کا اہتمام کیا گیا تھا۔۔ فلسفی شاعر علامہ اقبال کی نظمیں ا ور غزلیں جو کہ مختلف سنگرز نے گائی تھیں۔ ان پر مشتمل البم ، اپنا مقام پیدا کر، کے اجرا کے لئے تقریب منتعقد کی گئی تھی۔ اس محفل کی صدارت اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کر رہے تھے۔ ان کی اہلیہ بیگم صہبا مشرف کے علاوہ پنجاب کے گورنر جنرل خالد مقبول، وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی، شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ کے پی) کے گورنر لیفٹنٹ جنرل جان محمد اورکزئی، سندھ کے وزیر اعلی اربا ب غلام رحیم، بلوچستان کے وزیر اعلی جام محمد یوسف، پاکستان مسلم لیگ (قاف) کے صدر چوہدری شجاعت حسین، وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، وزیر اطلاعات محمد علی درانی، وفاقی وزیر صحت، ناصر خان، پوری پنجاب کابینہ، ارکان پارلیمنٹ اور متعدد شعرا و مصنفین موجود تھے۔ گویا کہ اہل سیف ، اہل قلم اور اہل سیاست کا ایک نمائندہ اجتما ع تھا۔ علامہ اقبال کی بیٹی منیرہ بانو کو وہیل چیر پر اسٹیج کے قریب لایا گیا ۔ جنرل پرویز مشرف اسٹیج سے اتر کر ان کو ملنے کے لئے آئے اور ان کا احوال پوچھا۔ اس محفل میں علامہ اقبال کے خاندان کے دیگر افراد بھی موجود تھے۔ اسٹیج پرنیشنل صوفی کونسل کے سربراہ چودھدری شجاعت حسین جنرل مشرف کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ البم میں شامل علامہ اقبال کی نظموں اور غزلوں کو فریحہ پرویز، ابرار الحق، جواد احمد، شبنم مجید، حمیرا ارشد، معصومہ انور اور راحت فتح علی خان جیسے سنگرز نے گایا ہوا تھا۔ اس موقع پر کئی سنگرز نے لائیو پرفارمنس بھی دی۔ اس تقریب کی کوریج کے لئے اے پی پی، پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور پی آئی ڈی کے نمائندے موجود تھے۔ ان دنوں جنرل مشرف مسلسل دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ اس لیے وہاں پر موجود سرکاری میڈیا کے ارکان بہت پریشان تھے۔ کہ کب یہ تقریب ختم ہو اور کب وہ سلامتی سے اپنے گھروں کو جائیں۔ میں نے اور ریڈیو پاکستان کے وہاں پر موجود پروڈیوسر نے اپنے اور اسٹیج کے درمیان فاصلے کو ناپا تو صرف پانچ قطاروں کا فرق تھا۔ ایک خیال آیا کہ اگر مزایئل یا کسی اور ھتھیار سے حملہ ہوا تو جنرل مشرف کے ساتھ باقی لوگ بھی مارے جائیں گے۔ اس وقت ہم دونوں کے منہ سے اتفاق سے ایک ہی فقرہ ادا ہوا یااللہ ہمیں کسی اور کی موت نہ دینا۔ ہمیں ہماری موت ہی دینا۔ اس موقع پر جب جنرل مشرف کے خطاب کی باری آئی تو انہوں نے کہ کہ معاشرے میں رواداری کے فروغ کے لئے صوفیا کرام کی تعلیمات کو عام کرنا بہت ضروری ہے۔ اور کہا کہ صوفیا نے انسانوں کے درمیان محبت کے فروغ کے لیئے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔ اس موقع پر سب حاضرین میں البم۔۔اپنا مقام پیدا کر، کی سی ڈیز سب میں تقسیم کی گئیں۔ وہ سی ڈی میں نے درجنوں دفعہ گھر پر اپنے کمپیوٹر پر چلائی۔ علامہ اقبال کی غزلوں کو سننے کا اپنا ہی مز ا تھا۔ آخر صوفی ازم کا سہارا کیوں لیا گیا۔ اس کی وجہ بڑی سادہ تھی۔ کارگل کی جنگ اور بھارتی طیارے کے اغوا میں مذہبی عسکریت پسندوں کے مبینہ کردار اور بھارتی پراپیگنڈے کی وجہ سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا رویہ پاکستان اور مشرف حکومت کے بارے میں بڑا سرد مہر ہوگیا تھا۔ اب فوجی حکمران کی کوشش تھی کہ وہ پاکستان کے مذہبی طبقے کو صوفی مت کے پیرو کاروں کے طور پر اجاگر کرے۔ یہی وجہ تھی کہ ستمبر دو ہزار چھ کے آخری ہفتے میں اسلام آباد میں قومی صوفی کونسل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس کا پیٹرن ان چیف صدر جنرل پرویز مشرف کو بنایا گیا۔ چوہدری شجاعت حسین اس کے چیرمین جبکہ علامہ اقبال کے نواسے، میاں یوسف صلاح الدین کو وائس چیرمین مقرر کردیا گیا۔ کونسل کے ارکان میں مشاہد حسین سید، حمید ھارون، عباس سرفراز اور جام محمد یوسف شامل تھے۔ کئی مغربی ممالک کے سفرتکار اس مہم میں جانے اور انجانے میں مشرف حکومت کا ساتھ دے رہے تھے۔ ان میں لاہور میں امریکی پرنسپل آفسیر برائن ڈیوڈ ہنٹ کا نام سرفہرست ہے جس نے لاہور سمیت پنجاب بھر میں درگاہوں ، مزاروں اور مدرسوں کے دورے کیے اور اپنے تعلقات علما اور گدی نشینوں کے ساتھ بنائے۔