خار زار صحافت۔۔۔قسط اٹھتر

0
1356

تورخم۔۔۔پاک۔افغان بارڈر

تحریر: محمد لقمان

دس نومبر انیس سو ستانوے کو صبح سویرے ہی تورخم بارڈر پر جانے کے لئے پشاور کے یونیورسٹی ٹاون سے روانہ ہوئے تو اندازہ نہیں تھا کہ کتنا فاصلہ ہوگا اور وقت کتنا لگے گا۔ کارخانو مارکیٹ سے گذرتے ہوئے جمرود پہنچے تو پتہ چلا ہم بندوبستی علاقے سے نکل کر علاقہ غیر یعنی خیبر ایجنسی میں داخل ہو چکے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد ایوب خان کے دور میں تعمیر کیا گیا باب خیبر بھی نظر آ گیا جو کہ درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ درہ خیبر جس کی کل لمبائی تریپن کلومیٹر ہے، پاک۔افغان سرحد ی مقام تورخم جانے کا واحد راستہ ہے۔ صدیوں سے شمال مغرب سے برصغیر پر حملہ کرنے والے اسی درے کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ درہ اکثر جگہوں پر خاصہ چوڑا ہے۔ مگر علی مسجد کے مقام پر یہ تنگ ہو جاتا ہے۔ تورخم جاتے ہوئے علی مسجد کے مقام پر کچھ دیر کے لئے رکے تو سرحد کی طرف سے ڈھلان پر تیزی سے نیچے آتے ہوئے چین کے بنے ہوئے بائسکل پر نظر پڑی۔ جس پر ایک قبائلی لڑکا سوا رتھا۔ جو بات بڑی عجیب لگی وہ اس کے دونوں طرف بندھے ہوئے مزید چار بائسکل تھے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے بات کی تو اس نے بتایا کہ چینی ساخت کے یہ بائسکل سمگل ہو کر افغانستان سے آ رہے تھے۔ اور یہ پشاور یا پاکستان کے دیگر شہروں میں مہنگے داموں بکنے تھے۔ قریب دو گھنٹے کے بعد ہم خیبر ایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل پہنچے تو وہاں ایف سی سے تعلق رکھنے والے جوانوں نے استقبال کیا۔ بعد میں منچنی چیک پوسٹ پر ایف سی حکام اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ لنڈی کوتل نے خیبر ایجنسی اور تورخم بارڈر کے حوالے سے بریفنگ دی۔ روائتی قبائلی لنچ کا موقع بھی ملا۔ اس کے بعد ہمیں وہاں سے تورخم لے جایا گیا۔ سرحدی مقام پر جہاں ٹرک آ جا رہے تھے۔

وہیں قبائلی افراد بھی پرمٹ کے ذریعے سرحد کے آر پار سفر کر رہے تھے۔ طالبان کا دور تھا۔ اس طرف اگر پاکستانی فوج اور پیرا ملٹری ایف سی کے جوان تھے تو دوسری طرف سروں پر پگڑی باندھے مسلح طالبان موجود تھے۔ وسطی ایشیا سے آئے ایک صحافی نے جب پوچھا کہ طالبان کہاں ہیں تو اشارے سے سرحد پار کھڑے نوجوانوں کی طرف اشارہ کیا گیا تو وہ حیر ان رہ گیا۔ غیر ملکی صحافیوں کی سوچ میں تو طالبان کوئی خونخوار چیز کا نام تھا۔ مگر ان کو یہ جان کر حیرانگی ہوئی کہ طالبان بھی ان کی طرح عام انسان تھے۔ تورخم پر جو چیز بڑی حیران کن تھی وہ غیر ملکی کرنسی کی عجب انداز میں تجارت تھی۔ درجنوں پشتون ڈالرز ، پاکستانی روپے اور افغانی کرنسی کو زمین پر چنگیروں میں رکھ کر بیچ رہے تھے۔ عربی اور فارسی کی طرح اٖفغان فارسی یعنی دری میں بھی کرنسی تبدیل کرنے والوں کو صرافہ کا نام دیا گیا تھا۔ وفد کے ارکان نے گروپ فوٹو بنوانے کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر خوب تصویر کشی کی۔ اس زمانے میں فوٹو گرافی ہی تو تفریح کا ذریعہ تھا۔ دو تین گھنٹے گھومنے پھرنے کے بعداب پشاور واپس جانے کا وقت آچکا تھا۔ ایف سی حکام نے الوداع کہا تو پشاور کی طرف چل پڑے۔ راستے میں تھوڑی دیر کے لئے حیات آباد باڑا مارکیٹ میں رکنے کا موقع ملا تو میں نے اپنی بیٹی سائرہ جو کہ اس وقت صرف دو ماہ کی تھی ، کے لئے ایک ڈول ہاوس خریدا۔ اس کے علاوہ بیگم اور اپنے بہن بھائیوں کے لئے تحائف لیے۔ پشاور میں ریوالی ریسٹ ہاوس سے سامان لیا اور ذہن میں خوبصورت یادیں سجائے اسلام آباد واپس پہنچ گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here