تحریر: محمد لقمان
بائیو ٹیکنالوجی : کیا فوائد ، کیا نقصانات
کوالالمپور میں ایشیائی ورکشاپ کے دوران بائیو ٹیکنالوجی کے بارے میں جاننے کا موقع ملا اور کئی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں۔ زراعت کے شعبے میں بائیو ٹیکنالوجی کا استعمال کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں فصلوں کی پیداوار بڑھی ہے ، وہیں پودوں پر کیڑے مکوڑوں اور پیراسائٹس کے حملے کم کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ لیکن بائیوٹیکنالوجی کو زیادہ شہرت 1990 کی دہائی میں ملی جب اس کی ذیلی شاخ جینیٹک انجینئرنگ کا دنیا بھر میں استعمال عام ہوگیا۔ دنیا میں جینیاتی طور پرتبدیلی کے حامل پودوں کی پہلی مرتبہ تجارتی بنیادوں پر کاشت 1996 میں ہوئی۔ پچھلے 22 سالوں میں جی ایم فصلوں کے زیر کاشت رقبے میں تقریباً 100 گنا تک اضافہ ہوچکا ہے۔ امریکہ کی مڈ ویسٹ ریاستوں میں مکئی کی فصل ہو یا بھارت اور چین میں کپاس، جی ایم او اقسام نے فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے جس سے کسانوں کی آمدن بڑھی ہے۔ اس وقت دنیا میں جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پپیتہ اور آلو میں وائرس کے خلاف مدافعت والی اقسام تیار کرلی گئی ہیں۔ کینولہ اور سویا بین میں خوردنی تیل کی خصوصیات بدل دی گئی ہیں جبکہ ٹماٹر کی تاخیر سے پکنے والی اقسام بھی اسی ٹیکنالوجی کی مرھون منت ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے فصلوں میں غذائی عناصر بڑھا دیے گئے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب اپنے لائف سٹائل میں تبدیلی لائے بغیر بھی کوئ شخص اپنی غذا میں بہتری لاسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں انسانی صحت میں بہتری آتی ہے تو وہیں دنیا میں بھوک اور فاقے کی شرح میں بھی کمی آتی ہے۔ اب تو آب و ہوا اور موسم میں تغیرات کے باوجود بھی فصلیں اگانا مشکل نہیں رہا۔ تیسری بات جو کہ بڑی اہم ہے کہ اب جی ایم اقسام کسی بھی قسم کے کیڑے مکوڑوں سے بہت کم متاثر ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو سب سے پہلے کپاس کی ٹرانسجینک اقسام پر تحقیق ہوئی۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں فیصل آباد میں نیاب جیسے تحقیقاتی ادارے میں کپاس کی اقسام نیاب 78 اور کرشمہ میں جینیاتی تبدیلیاں کی گئیں۔ بعد میں جینیٹک انجینرنگ میں تحقیق کے لئے ایک ایک الگ سے ادارہ نبجی قائم کردیا گیا۔ عالمی جی ایم او کمپنی مانسینٹو نے پاکستان میں مکئی کی نئی فصل متعارف کرائی ہے۔ زراعت کے علاوہ جانوروں اور انسانوں پر بھی ریسرچ جاری ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق انسانی جینز پر تحقیق کرکے کئی بیماریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
مگر اس بارے میں بہت سارے سازشی مفروضے بھی ہیں۔ ایک عام چیز جو کہ عوام میں پھیلائی گئی ہے کہ بائیو ٹیکنالوجی کا استعمال منفی اثرات بھی لاسکتا ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے فصلوں کی کاشت سے زمین کی اپنی زرخیزی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح فصلوں کے جینیاتی ڈھانچے میں ایسی تبدیلیاں آسکتی ہیں جو کہ بعد میں انسانی صحت اور ماحول کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح ابھی تک جی ایم او فصلوں پر خرچہ کسی طور بھی روائتی فصلوں پر آنے والے خرچے سے کم نہیں۔ مگر عموماً ایسا نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور بیماریوں کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے ٹیکنالوجی نے انسان کا بہت ساتھ دیا ہے، حیوانی شعبے میں بائیوٹیکنالوجی کے استعمال سے طبی شعبے میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ جینیاتی تبدیلیاں پہلی مرتبہ 1974 میں ایک چوہے میں کی گئیں۔ سب سے بڑا کارنامہ 1978 میں انسانی انسولین تیار کی گئی اور 1982 میں انسولین تیار کرنے والے بیکٹیریا کو تجارتی بنیادوں پر متعارف کروایا گیا۔