خار زار صحافت۔۔۔۔قسط چھپن

0
2008

سرائیکی وسیب کی باتیں

تحریر: محمد لقمان
انیس سو اسی کی دہائی میں جب قائد اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو ہاسٹلز میں پشتونوں کی خیبر کونسل، سندھیوں کی مہران کونسل، بلوچوں کی بولان کونسل اور حتی کہ ایبٹ آباد والوں کی ہزارہ کونسل موجود تھی۔ اس دور میں اگر کوئی اپنی لسانی یا نسلی پہنچان کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ تو وہ پنجاب کے لوگ تھے۔ نہ کوئی پنجابی کونسل تھی نہ کوئی سرائیکی یا راول کونسل۔ لیکن جب انیس سو نوے کی دہائی کے وسط میں ملتان میں چند ماہ کے لئے تعینات ہوا تو سرائکی پہچان کے لئے کوششوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ گر چہ سرائکی ٹوپی خال خال ہی نظر آئی مگر اپنے آپ کو پنجابیوں کو الگ سمجھنے کی باتیں ضرور سننے کو ملتیں۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کی دیواروں پر ایسے نعرے بھی پڑھے جن کا مقصد تخت لاہور کی پالیسیوں پر نا گواری کا اظہار ہوتا۔ کبھی کبھار بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کا بیان یا پریس ریلیز آجاتی جس کو اے پی پی جیسی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے ذریعے ریلیز کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایک صاحب سلیم لنگاہ تھے جنہوں نے اپنی ایک این جی او بنا رکھی تھی۔ ہفتے میں تقریباً دو بار ضرور آتے ، پریس ریلیز دیتے اور چلے جاتے۔ ان کی خبر کے موضوعات انتہائی علاقائی ہوتے۔ مگر ایک ایسی تقریب میں شرکت کا موقع اس دوران مجھے ملا۔ جس میں سرائیکی عصبیت کا کھلے عام اظہار کیا گیا۔ ملتان میں اس دور میں ایک صحافی تھے عارف بلوچ۔ انہوں نے اپنے سرائکی زبان کے اخبار ہوک کی تقریب رونمائی میں شرکت کی دعوت دی تو میں وہاں پہنچ گیا۔ تقریریں شروع ہوئیں تو جہاں سرائکی وسیب کے فروغ کی باتیں ہوئیں تو وہیں پنجابی سامراج کو بھی خوب لتاڑا گیا۔ وسطی پنجاب کو سرائکی علاقوں کی محرومیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ تقریب اختتام کو پہنچی تو تقریب کے میزبان میرے پاس آئے اور پنجابی زبان بولنے والوں کے خلاف باتوں پر معذرت کا اظہار کیا۔ یہ ان کا بڑا پن تھا۔ مگر مجھے ان کی باتوں میں وزن بھی نظر آیا۔ اگر مشرقی پاکستان والوں کے ساتھ ہمارا رویہ منصفانہ اور بہتر ہوتا تو کبھی الگ نہ ہوتے۔ ون یونٹ کے قیام سے اب تک یہی ہوا ہے کہ جنوبی پنجاب کو مخدوموں، سرداروں اور تمن داروں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے تہتر سال کے بعد بھی جمہوریت میں عام عوام کی شرکت بہت کم نظر آتی ہے۔ اگر ملتان شہر کی بات کی جائے تو اندرون خصوصاً النگ کے علاقے میں سرائکی آبادی ویسے بھی کم ہے۔ زیادہ تر لوگ روہتک حصار سے آئے ہوئے گلابی اردو بولنے یا مشرقی پنجاب سے ھجرت کرکے آنے والے انصاری برادری کے لوگ۔ لیکن جونہی آپ مضافاتی علاقوں میں آتے ہیں تو سرائکی اکثریت شروع ہوجاتی ہے۔ ان علاقوں نے بہت بڑے سیاستدان پیدا کیے جن کی زندگی کا مقصد صرف وفاق اور پنجاب پر حکومت کرنا رہا ہے۔ ابھی بھی جنوبی پنجاب کے حقوق کی جنگ لڑنے والوں کی رہائش گاہیں لاہور کے پوش علاقوں۔ڈیفنس اور ماڈل ٹاون کے علاوہ اسلام آباد اور کراچی میں ہیں۔ ان کا جنوبی پنجاب کے ساتھ کتنا تعلق ہے۔ اس کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here