نیلگوں معیشت اور پاکستان ۔۔۔قسط اول

0
769


تحریر: محمد لقمان

امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک کے شہریوں کے لئے ٹرانسپورٹیشن اور دیگر سہولتوں کے لئے مالی وسائل واشنگٹن سے نہیں آتے۔۔ بلکہ اس کی ذمہ دار نیویارک اینڈ نیوجرسی پورٹ اتھارٹی ہے۔ جو بندرگاہ اور دیگر مقامات سے مختلف ٹیکسوں اور محصولات کے ذریعے تقریباً پانچ ارب ڈالرز کے قریب ہر سال وسائل پیدا کرتی ہے اور اسی لاکھ سے زائد آبادی کے کاسموپولیٹن شہر پر خرچ کرتی ہے۔ یہ کام یہ اتھارٹی ایک صدی سے زائد عرصے سے کر رہی ہے۔ نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اس اتھارٹی نے شہر کی بحالی میں ایک اہم کردا ر ادا کیا۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوا ہے کہ امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک نے سمندر سے متعلق سرگرمیوں سے ملنے والے محصولات کے ذریعے اپنی معیشت کو مضبوط بنایا ۔ امریکہ کی مختلف بندرگاہوں پر سامان کی نقل و حمل ، ساحلی سیاحت وغیرہ سے ہر سال تین سو تہتر ارب ڈالر کی آمدنی پیدا ہوتی ہے۔ مغرب کے دیگر ممالک نے سمندری معیشت یا بلیو اکانومی کو اتنا فروغ دیا ہے جس سے ان کی مجموعی معیشت کی ترقی کو بھی ایک مہمیز ملی ہے۔ پاکستان کے ارد گرد کے ممالک میں بھی بلیو اکانومی کو اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ بھارت میں ممبئی سے کلکتہ تک درجنوں بندگاہیں موجود ہیں۔ جہاں پر دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے سامان کی ہینڈلنگ سے چھ ارب ڈالر کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے۔ مگر وطن عزیز میں بحری جہازوں سے آنے اور جانے والے سامان کی ہینڈلنگ سے بہت کم ریونیو ہے۔ کراچی کی بندرگاہ کو چلانے کے لئے پورٹ ٹرسٹ موجود ہے۔ مگر جب بھی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی ترقی کے لئے وسائل کی ضرورت پڑتی ہے تو کراچی کی ضلعی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت کو وفاق کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر نیویارک پورٹ اتھارٹی کی طرح کراچی پورٹ ٹرسٹ بھی فعال ادارہ ہوتا تو عروس البلاد کا انفراسٹرکچر اتنا ٹوٹا پھوٹا نہ ہوتا۔ یہ معاملہ صرف کراچی تک محدود نہیں۔ پاکستان میں سمندری معیشت کی ترقی کے لئے کبھی بھی پچھتر سالہ تاریخ میں بڑے اقدام نہیں لیے گئے۔ بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے پاکستان کے مشرقی صوبے میں وسیع ساحلی علاقے تھے۔ اس وقت دو بڑی بندر گاہیں۔۔۔ڈھاکہ اور چٹاگانگ تھیں۔ مگر وہاں نو بندر گاہیں بن چکی ہیں۔ اس شعبے کے لئے کوئی الگ سے وزارت نہیں تھی۔ عموماً بندرگاہوں کا کنٹرول وزارت مواصلات کے پاس ہی تھا۔ مغربی پاکستان میں صرف ایک بندرگاہ کراچی تھی۔ جب کہ پورٹ قاسم بہت بعد میں بنی۔ اور گوادر تو ابھی بھی اپنی پوری صلاحیت کے مطابق فعال نہیں ہوسکی۔ سال دو ہزار چار میں پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت الگ سے بنی۔ جبکہ اکتوبر دو ہزار سترہ میں اس کو میری ٹائم افیرز کی وزارت کا نام دے دیا گیا۔ بلیو اکانومی کے لئے کبھی بھی کوئی قابل عمل سکیم یا پلان سامنے نہیں آیا۔ دسمبر دو ہزار اٹھارہ میں پاکستان کی پہلی میری ٹائم ڈاکٹرائن کو لانچ کیا گیا۔ جس میں سمندری سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بلیو اکانومی کے فروغ کے لئے گوادر سمیت مختلف بندرگاہوں کو محفوظ بنانے کے اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ سال دو ہزار بیس کو بلیو اکانومی کا سال قرار دیا گیا۔ مگر کورونا کی وبا کی وجہ سے اس سال کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے کوئی قابل عمل قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بلیو اکانومی کی ترقی کے لئے نو شعبوں میں کام کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ جن میں قابل تجدید توانائی، ماہی گیر، سمندری ٹرانسپورٹ یعنی جہاز رانی، مزید بندرگاہوں کی تعمیر، سیاحت، خوراک اور توانائی، موسمیاتی تغیر، فضلے کو ٹھکانے لگانے کے طریقے اور معدنیاتی ترقی شامل تھے۔ مگر باوجودہ ان تما م شعبوں میں قابل ذکر کام نہیں ہوسکا۔ گوادر کے بعد کراچی کمپریہنسو کوسٹل ڈیولپمنٹ زون کی سی پیک کے تحت تعمیر کے لئے حال ہی میں منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جس کے تحت ایک الگ سے فشنگ پورٹ بنائی جائے گی اور مچھلی کی برآمدات کے لئے پراسسنگ زون کی تعمیر بھی ہوگی۔ اس منصوبے کے لئے ساڑھے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ وزارت بحری امور کی طرف سے بھی بلیو اکانومی کے لئے مزید ایل این جی ٹرمینلز کے قیام ، ایک ایل پی جی ٹرمینل کی تعمیر سمیت متعدد منصوبے تیار کیے گئے تھے۔ ان میں سے صرف گوادر پر ایل پی جی ٹرمینل ہی تعمیر ہوسکا ہے۔ ملکی معیشت کی دگرگوں حالت اور سیاسی غیر یقنی صورت حال کی وجہ سے دیگر منصوبے ابھی بیک برنر پر ہی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here