مینویل ٹائپ رائٹر سے ای میل تک
تحریر: محمد لقمان
انیس سو پچاسی میں بی آے کے امتحان سے فارغ ہوا تو سوچا کہ ٹائپنگ سیکھ لی جائے۔ اس زمانے میں ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ میں تربیت صرف بڑے افسران کے ساتھ کام کرنے والے اسٹینو گرافرز اور پرائیویٹ سیکرٹریز کی ضرورت سمجھی جاتی تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ صرف سرکاری دفاتر میں ٹائپسٹ اور اسٹینو گرافر کی جاب کے خواہش مند ہی یہ ہنر سیکھتے تھے۔ اس کے لئے پٹ مین شارٹ ہینڈ کو سیکھنا پڑتا تھا جس کا موجد ایک انگریز آئزیک پٹمین تھا۔ جس نے مختصر نگاری کا یہ طریقہ 19 ویں صدی میں متعارف کروایا تھا۔ فیصل آباد میں کچہری بازار کے باہر منیر کمرشل کالج ہوتا تھا۔ وہاں ٹائپنگ سیکھنے کے لئے گیا ۔ منیر صاحب اس وقت بھی پچاس سال سے زیادہ عمر کے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دو ماہ کا ٹریننگ کورس ہے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ چھوٹی سی دو منزلہ دکان میں قائم کمرشل کالج میں دو درجن کے قریب مینول ٹائپ رائٹرز پڑے ہوئے تھے۔ منیر صاحب نے اپنے ہی کالج سے ٹائپنگ سیکھے ہوئے لڑکوں کو انسٹرکٹرز کی حیثیت دے رکھی تھی۔ ایک ایسے ہی نوجوان کے حوالے مجھے کردیا گیا۔ جس نے مجھے بتایا کہ ٹائپ رائٹر پر لکھے انگریزی حروف تہجی کو انگلیوں سے کیسے پریس کرنا ہے۔ اس کے بعد ٹائپ رائٹر پر انگلیوں کو رکھنا سکھایا گیا۔ جب میں نے پہلا لیٹر اے پریس کیا تو مجھے ایک عجب کامیابی کا احساس ہوا۔ لکڑی کی تختی پر قلم سے لکھنے اور بعد میں فاونٹین پین اور بال پوائنٹ کا استعمال کرنے والے کے لئے یہ عمل کسی بڑے کارنامے سے کم نہ تھا۔ آخر ایک دن میں بغیر کی بورڈ کی طرف دیکھے 26 حروف تہجی لکھنے کے قابل ہوچکا تھا۔ اور تیز و طرار بھوری لومڑی نے سست کتے پر چھلانگ بھی لگا دی تھی۔ چند سو روپے کے خرچ کے بعد ٹائپنگ سیکھ چکا تھا۔ نومبر 1985 میں بی اے کا رزلٹ آگیا اور دسمبر میں میرا قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا۔ میں نے اولمپیا کمپنی کا ایک پرانا ٹائپ رائٹر خرید لیا تھا اور یونیورسٹی میں دو سالہ قیام کے دوران کبھی کبھی اسائنمنٹس ٹائپ کرکے جمع کرادیتا۔ مجھے ٹائپنگ میں مہارت کا فائدہ 1990 میں اے پی پی میں بھرتی کے لئے انٹرویو کے دوران ہوا۔ جب مرحوم ایم آفتاب نے انٹرویو کے دوران پوچھا کہ کیا مجھے ٹائپنگ آتی ہے تو میں نے بتایا کہ میں بغیر کی بورڈ کی طرف دیکھے ٹائپنگ کرسکتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ جب اے پی پی کی ٹریننگ شروع ہوئی تو میرے علاوہ صرف دو سے تین اور ٹرینی جرنلسٹس تھے جو دس انگلیوں کے استعمال سے ٹائپنگ کر سکتے تھے۔ اے پی پی میں شروع میں مینویل ٹائپ رائٹرز پر لوہا کوٹنا پڑا۔ ٹائپ کی گئی خبر کو ٹیلی پرنٹر آپریٹر دوبارہ ٹائپ کرتا ۔ ایک ٹیپ بنتی ۔ جب وہ ٹیپ ٹیلی پرنٹر پر چلتی تو اخبارات کے دفاتر میں پڑی ٹیلی پرنٹر مشینیں بھی کریڈ اگلنا شروع کردیتیں۔
بعد میں 1992 میں اے پی پی کی کمپیوٹرائزیشن ہوئی۔ ای جی ایس کمپنی کے ذریعے ہمیں کمپیوٹر پر کام کرنا سکھایا گیا۔ ایف ڈیٹا لینگویج کے استعمال سے ایک شہر کا دوسرے شہر سے رابطہ قائم ہوگیااور خبروں کی اخبارات کے دفاتر تک ترسیل آسان اور تیز ہوگئی ۔ ای جی ایس کے رشید صاحب ہمارے لاہور میں انسٹرکٹرز تھے۔ وہ روزانہ اے پی پی لاہور بیورو آتے اور ہمیں سکھاتے۔ نیٹ ورکنگ کو سیکھنے میں محمد فیاض ( فیاض چوہدری) اور راقم الحروف باقی لوگوں سے آگے تھے۔ اب ٹیلی پرنٹرز کی جگہ کمپیوٹر پرنٹرز نے لے لی تھی۔ بعد میں فیکس بھی آگئی ۔ میں نے اپنے گھر پر ایک کمپیوٹر خرید لیا تھا۔ جو کہ 386 قسم کا تھا۔ بعد میں اس کو 486 سے بدلا۔ دو تین سال بعد اسی کمپیوٹر کو پینٹیم ون میں بدلوایا اور سال 2000 کے آخر میں میرے گھر پر ایک ایسا کمپیوٹر دستیاب تھا جس کے ذریعے میں انٹرنیٹ کی جدید ٹیکنالوجی کے مزے لے سکتا تھا۔ شروع میں سب سے مشکل مرحلہ ماوس کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر کام لینا تھا۔ کبھی کرسر ادھر نکل جاتا تو کبھی ادھر۔ بہر حال اس پر قابو پالیا ۔ ان دنوں انٹرنیٹ بہت مہنگا تھا ۔ ایک گھنٹے کے لئے انٹرنیٹ کی دستیابی 45 روپے میں ہوتی تھی۔ دو تین گھنٹوں کا انٹرنیٹ خریدنے کے بعد اس کی راشننگ کرتا یوں۔ ڈائل اپ کنکشن کے ذریعے دو تین روز اس کے مزے لیتا۔ یاہو چیٹ روم سب سے زیادہ دلچسپی کا مرکز ہوتے تھے۔ جہاں اکثر لوگ گھنٹوں دنیا کے مختلف علاقوں کے افراد سے گفتگو کرتے۔ گفتگو کرنے سے پہلے ایک سوال ایج، سیکس اور لوکیش ( عمر، صنف اور مقام ) پوچھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اب کمپیوٹر فیکس ( بٹ ویر) اور ای میل کے آنے کے بعد صحافت بھی آسان ہوچکی تھی۔ رات اور چھٹی کے دن بھی دفتر گئے بغیر خبر فائل کرنا آسان ہوگیا تھا۔ 1960 کی دہائی میں پیدا ہونے والی نسل اس لیے بے مثال ہے کہ اس نے تختی سے کمپیوٹر سے انٹرنیٹ تک ہر قسم کے کمیونیکیشن کے ذریعے سے فائدہ اٹھایا ہے۔