جنرل انتخابات اور ایم ایم اے کا عروج
تحریر: محمد لقمان
آخر کار دس اکتوبر دو ہزار دو کا دن آگیا۔۔۔جمعرات کا دن تھا۔ پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے پولنگ ہو چکی تھی۔ شام کے وقت اسلام آباد میں اے پی پی ہیڈ کوارٹرز میں قائم الیکشن سیل میں راقم الحروف ، قمراللہ چوہدری اور اسلام آباد بیورو سے تعلق رکھنے والے رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز موجود تھے۔ ہمارا کام مختلف پارٹیوں کی حاصل کردہ نشستوں کو گننا اور ان کو ٹیبل کی شکل دینا تھا۔ ان انتخابات میں واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ مغلوب اور مفتوح مسلم لیگ ن کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اگرچہ ان انتخابات میں ستر سے زیادہ سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی تھیں۔ لیکن پورا میدان مسلم لیگ قاف کے لئے ہی کھلا تھا۔ جو کہ ایک نئی سلطانی پارٹی کے طور پر قائم کی گئی تھی۔ جس کے سربراہ مسلم لیگ ن کے منحرف لیڈر میاں اظہر تھے۔ جس کو مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے انیس سو نوے کے انتخابات کے بعد پنجاب کا گورنر بھی بنایا تھا۔ مگر مشکل میں کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی بھی میدان میں محدود حالت میں موجود تھی۔ مگر نہ تو مسلم لیگ ن کی قیادت پاکستان میں موجود تھی اور نہ ہی بے نظیر سمیت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما۔ گویا کہ سنجیاں گلیوں میں قاف لیگ مرزا یا ر کی طرح پھر رہی تھی۔ انتخابات کے نتائج الیکشن کمیشن سے آنے لگے تو شروع میں زیادہ تر سیٹیں قاف لیگ کو ہی ملتے نظر آرہی تھیں۔ ہر کوئی بے بسی سے ان حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔ کیونکہ ایک فوجی حکمران نے اپنے مخالفین کو بظاہر قانونی طور پر حکمرانی کی دوڑ سے الگ کردیا تھا۔ جاوید ھاشمی کی قیادت میں انتخابات لڑنے والی ن لیگ تو کسی طور بھی مشرف کو قابل قبول نہیں تھی تو پیپلزپارٹی کو بھی اس نے محدود کردیا تھا۔ عدالتوں کے کچھ فیصلوں کی روشنی میں بے نظیر سمیت مختلف لیڈرز الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ اور پیپلزپارٹی پر بھی بطور پارٹی کئی پابندیاں عائد ہو چکی تھیں۔ اس لیے مخدوم امین فہیم کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرینز نے دو ہزار دو کے انتخابات میں حصہ لیا۔ رات کے بارہ بجے کے بعد آنے والے نتائج میں ایک واضح فرق نظر آنا شروع ہوگیا تھا۔ دریائے سندھ کے پار دو صوبوں میں سییٹیں مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل جیت رہا تھا۔ جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تھے۔ اس نے انیس سو ستر کے مغربی پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی یاد دلا دی تھی۔ جسن میں مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود کی جماعت بھی اسی طرح ان دو صوبوں میں خاصی نشستیں حاصل کر سکتی تھی۔ خصوصاً اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے ( این ڈبلیو ایف پی) کی صوبائی اسمبلی میں تو اس کو اکثریت مل چکی تھی۔ این ڈبلیو ایف پی کی طرح بلوچستان میں بھی متحدہ مجلس عمل جیت رہی تھی۔ پنجاب میں قاف لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت مل گئی تھی۔ اگرچہ قاف لیگ کی عددی اکثریت تھی مگر دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکی تھی۔ ان حالات میں معلق پارلیمنٹ وجود میں آنے کے امکانات بڑھ چکے تھے۔ پوری رات الیکشن کمیشن سے آنے والے نتائج کی ٹیبولیشن اور پی ٹی وی کی مانیٹرنگ کرتے گذر گئی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی تریسٹھ نشتوں پر کامیابی ملی تھی۔ جبکہ جنرل مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ قاف کو اٹھتر، متحدہ مجلس عمل کو پینتالیس اور مسلم لیگ ن کو پندرہ سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ ایم کیو ایم کو کراچی اور حیدرآباد سے تیرہ نشستیں مل چکی تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق کرکٹر عمران خان بھی میانوالی سے ایک نشست پر جیت گئے تھے۔ کسی طور پر بھی کوئی پارٹی اکیلے سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ بعد میں عورتوں اور اقلیتوں کی نشستیں جیتنے کے بعد بھی قاف لیگ کی اسمبلی میں تعداد ایک سو پانچ تک ہی پہنچ سکی تھی۔ مگر تین سو بیالیس ارکان کے ایوان میں ان کے پاس سادہ اکثریت بھی موجود نہیں تھی۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ قاف لیگ کے سربراہ میاں اظہر انتخابات میں جیت نہیں سکے تھے۔ اس لیے وزیر اعظم بھی کسی اور کو ہی بننا تھا۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی میں پیپلزپارٹی، پنجاب میں قاف لیگ اور شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان کی اسمبلیوں میں متحدہ مجلس عمل کو لیڈ ملی تھی۔ ملکی سیاست کی بساط پر اب ہر قسم کا کھلاڑی موجودہ تھا۔ مگر شہہ دینے کی قوت صرف فوجی حکومت کے پاس تھی۔