خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو اڑتیس

0
356


شوکت عزیز : ملک کے دوسرے مہمان وزیر اعظم
تحریر: محمد لقمان
بلوچستان سے پہلے اور آخری وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کو زبردستی استعفی پر مجبور کرنے کے بعد چوہدری شجاعت حسین چند ماہ کے لیئے ملک کے وزیر اعظم بن گیئے۔اس دوران اس وقت ملک کے وزیر خزانہ شوکت عزیز کو وزارت عظمی کے لیئے نامزد کردیا گیا۔ امریکہ سے درآمد کردہ غیر عوامی نمایئندہ کو عوامی نمایئندہ بنانے کے لیئے اٹک کی تحصیل فتح جنگ میں میجر طاہر صادق اور سندھ کے ضلع تھرپارکر میں قومی اسمبلی میں اربا ب غلام رحیم کی نشستیں خالی کروا کر ضمنی انتخاب لڑایا گیا۔ انتیس جولائی دو ہزار چار کی شام کو جب وہ فتح جنگ کے قریب ایک جلسے سے خطاب کرکے واپس اسلام آباد آنے والے تھے۔وزیرخزانہ شوکت عزیز پر ہونیوالے حملے میں ان کے ڈرائیورسمیت چھ افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے۔ اور بم پروف گاڑی بھی ناکارہ ہوگئی۔ اٹھارہ اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات سے پہلے یہ دھماکہ مقامی اور عالمی سطح پر بڑی تشویش کا باعث بنا تھا۔ اس دھماکے کے فورا ً اس وقت موجود الیکٹرونک میڈیا خصوصاً جیو نے فوٹیج پر سرخ دایئرہ لگا کر ایک نوجوان کو خود کش حملہ آور کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا۔ فوٹیج میں دکھایا گیا کہ جونہی وہ نوجوان اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کرتا ہے دھماکہ ہو جاتا ہے۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ نوجوان تو رخصت ہوتے ہوئے شوکت عزیز کو ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہہ رہا تھا۔ یہ وہ روایت تھی کہ جو کہ پاکستان کے نوزائدہ سیٹلایئٹ میڈیا نے قایئم کی جو کہ ابھی بھی قایئم ہے۔ اندازے کی بنیاد پر خبر چلانا اور بعد میں غلط ثابت ہونے پر اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا ابھی بھی جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستانی میڈیا کی روایات میں شامل ہے۔
شوکت عزیز جو کہ ایک بینکر تھے ان کو وزیر اعظم کیوں بنایا گیا۔۔اس کے بارے میں حتمی طور پر ابھی بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔جیسے فلموں اور ڈراموں میں مہمان اداکار ہوتے ہیں۔ اسی طر ح پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ دوسرے مہمان وزیر اعظم تھے۔ ان سے پہلے معین قریشی بھی یہی کردار ادا کرچکے تھے۔ دونوں امپورٹڈ وزیر اعظم اپنا اپنا کردار ادا کرکے واپس بیرون ملک چلے گئے تھے۔ یوں ان کا پاکستان کی سیاست میں ایک محدود مدت کے لئے کردار رہا۔
شوکت عزیز تین سال تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے (یعنی اگست 2004 سے نومبر 2007 تک) اور 1999 سے ملک کے وزیر خزانہ بھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ وہ وزارت عظمی کے عہدے پر جتنی دیر فائز رہے اس دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے جو کہ کسی عوامی وزیر اعظم کی سیاسی زندگی کو اتھل پتھل کر سکتے تھے۔ لال مسجد آپریشن، ملک بھر میں وکلا تحریک، تباہ کن زلزلہ، جلا وطن اہم سیاسی رہنماؤں کی وطن واپسی، تحریک طالبان پاکستان کے حملوں اور کارروائیوں میں تیزی اور خیبر پختون خوا میں میں امریکی ڈرون حملوں میں تیزی شامل تھی۔ مگر شوکت عزیز نے اپنی سوانح عمری فرام بینکنگ ٹو دا اتھارٹی میں بہت کم ذکر کیا ہے۔ اگر سیاسی طور پر دیکھا جایئے تو وہ میر ظفر اللہ خان سے بھی زیادہ کٹھ پتلی حیثیت کے مالک تھے۔
میڈیا کے ساتھ ان کا تعلق مشیر خزانہ اور وزیر خزانہ کے طور تو بہت قریبی رہا۔ شروع کے دنوں میں اس وقت خبریں اور بعد میں ایکسپریس کے رپورٹر محمد الیاس ان کو اپنے تکیہ کلام یعنی بھائی جان کہہ کر پکارتے تھے۔ بعد میں جب وہ لاہور میں آتے تو وہ بھی صحافیوں کو مذاق میں بھائی جان ہی کہہ کر پکارتے ۔ مگر جونہی وہ وزیر اعظم بنے تو ان کا میڈیا سے تعلق کافی حد تک ختم ہوگیا۔ اس کی مثال اٹلس ہونڈا کے شیخوپورہ روڈ کے پلانٹ میں موٹر سائکل پلانٹ کا افتتاح تھا۔ جس میں میڈیا کو اسٹیج سے اتنا دور رکھا گیا تھا کہ وزیر اعظم سے بات بھی نہیں ہوسکی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here