خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو چونتیس

0
444


سال دو ہزار چار اور پاکستان میں معاشی ترقی
تحریر: محمد لقمان
نائین الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی حالات پر بڑے بر ے اثرات مرتب ہوئے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک سو اسی ڈگری کی تبدیلی پر تحریک طالبان کا رد عمل بہت شدید تھا۔ خیبر سے کراچی تک دھماکے ایک عام چیز بن گئے تھے۔ مگر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد بین الاقوامی جنگ میں پاکستان کی شرکت کی وجہ سے اربوں ڈالرز کی غیر ملکی امداد خصوصاً کولیشن سپورٹ فنڈ کی وجہ سے ملکی معیشت کافی سنبھل چکی تھی۔ بڑے عرصے کے بعد لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کا شعبہ بہت تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ تیس جون دو ہزار چار کو جب مالی سال اختتام کو پہنچا تو بڑی ملوں اور کارخانوں کی شرح نمو اٹھارہ فی صد سے اوپر تھی۔ وزیر خزانہ شوکت عزیز بار بار اس کا کریڈٹ لے رہے تھے۔ موڈی اور اسٹینڈر اینڈ پور کی ریٹنگ بھی کافی بہتر ہو چکی تھی۔ موٹر سائکلوں، گاڑیوں ، ریفریجریٹرز اور واشنگ مشینز کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ وزیر خزانہ شوکت عزیز نے انہی دنوں لاہور میں روشانے ظفر کی کشف فاونڈیشن کے ہیڈ آفس کا دورہ کیا تو انہوں نے ان سب کار ناموں کا تفصیل سے ذکر کیا۔ مگر اس ترقی کی ایک بہت بڑی قیمت ریاست نے ادا کی تھی۔ امریکہ کی ہر اچھی بری ہدایت ماننی پڑ رہی تھی۔ اس کی ایک بڑی مثال پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف کاروائی تھی۔ امریکی سی آئی اے کے دباو پر پہلے ان کو شمالی کوریا ، ایران اور دیگر ممالک کو نیوکلر ہتھیار اور ٹیکنالوجی غیر قانونی طور پر اسمگل کرنے کے الزام پر گھر پر نظر بند کیا گیا اور بعد میں چار فروری دو ہزار چار کو پاکستان ٹی وی پر لاکر ان کو قوم سے معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔ مجھے ابھی تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا غمزدہ اور افسروہ چہرہ یاد آتا ہے تو دل پر ایک گھونسا سا لگتا ہے۔ ہم نے کیسے اپنے ہیرو کو زیر و کرکے بدنام کیا تھا۔ بھارت میں میزائل پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالکلام کو ریاست کا صدر بنایا گیا تھا۔ مگر ہم نے ایٹمی پروگرام کے بانی کو مجرم کی شکل دے دی تھی۔ خیر ہر ملک کی اپنی روایات ہوتی ہیں۔ یہی روایات ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم ہمیشہ دیگر ممالک کے مقابلے میں کمزور ہی رہے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد لاہور سمیت ملک بھر میں ایٹمی بم اور میزایئلوں کے جتنے ماڈل جو کہ مئی انیس سو اٹھانوے کے دھماکوں کے بعد چوکوں میں نصب کیے گیئے تھے۔ سب ہٹا دیے گیئے۔ خاص طور پر لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے سامنے پارک میں بہت بڑا ماڈل تھا۔ جو کہ فروری دو ہزار چار کے بعد ہٹا دیا گیا۔ دو ہزار ایک میں پالیسی میں تبدیلی کے اثرات اب دفاعی پالیسی اور ایٹمی پروگرام پر بھی نظر آرہے تھے۔ اسی دوران بلوچستان سے چنے گیئے پہلے اور آخری وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی کے خلاف سازشوں کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔
جاری ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here