تحریر: محمد لقمان
عجب سی چومکھی جنگ چل رہی ہے۔ حکومت نے لنگڑا لولا لاک ڈاون مارچ کے مہینے میں کیا۔ سکول، ہوٹل، ریسٹورینٹس ، شادی ھال، مارکیٹس ، پتہ نہیں کیا کیا بند کردیا۔ مگر سڑکوں پر ٹریفک ویسی کی ویسی رہی۔ چہرے پر ماسک بھی بہت کم لوگوں نے لگایا۔ ایک دوسرے سے فاصلے کا تصور بھی نہیں اپنایا گیا۔ الٹا وفاقی حکومت کی طرف سے مسلسل یہ شکوہ کیا جاتا رہا کہ اٹھارھویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں نے لاک ڈاون کیا۔ ورنہ وفاق کی قیادت اس کے حق میں نہیں تھی۔ کہا گیا کہ کورونا سے شاید اتنے لوگ نہ مریں۔ جتنے بھوک اور افلاس سے مریں گے۔ اس سلسلے میں میڈیا پر ایسی ایسی کہانیاں چلائی گئیں کہ ہر کسی کو بھوک اور غربت سے ڈر لگنے لگا۔ اسی دوران رمضان آگیا اور ایک ایک کرکے تمام سیکٹرز کھول دیے گئے۔ جب رستے کھل جائیں تو کون کمبخت آہستہ اور احتیاط سے چلتا ہے۔ دکاندار کی خواہش تھی کہ عید الفطر سے پہلے لاک ڈاون کے دنوں کی کسر نکال لیں۔ ملبوسات اور کپڑے کی دکانوں پر تو پچھلے سالوں کے تمام ڈیزائن بک گئے۔ جب کہ گاہک کی سوچ تھی کہ اگر اب نہیں تو کبھی نہیں۔ نام نہاد اسمارٹ لاک ڈاون کے ساتھ عید کی تقریبات ختم ہوئیں تو ہر طرف کورونا کی یلغار شروع ہوگئی۔ دو تین ہفتے پہلے ہی فیس بک میں ہر روز درجنوں افراد کی پوسٹس لگتی تھیں کہ بتائیں کہ کسی نے کوئی کورونا کا مریض دیکھا تھا۔ اگر کوئی احتیاط کی باتیں کرتا تو اس کا ٹھٹھا اڑایا جاتا۔ یہ بھی کہا جاتا کہ سندھ حکومت صرف پیسے کھانے کے لئے کورونا کا شور مچا رہی ہے۔اسی طرح وفاقی اور پنجاب حکومتیں بھی اس کا مذاق اڑاتی تھیں۔ مگر اب کورونا ہر گھر میں پہنچ چکا ہے۔ اب آگ ہر کسی کے دامن تک آ چکی ہے۔ شیخ سعدی کی کہاوت ہے کہ جب ایک چشمہ پھوٹتا ہے تو اس کو ایک چھوٹی سی چیز سے بند کی جاسکتا ہے۔ مگر جب اس کا رقبہ بڑھ جاتا ہے تو ہاتھی کو کھڑا کرکے بھی بند نہیں کیا جاسکتا ۔ اب صورت حال یہ ہے اگر مکمل لاک ڈاون بھی کردیا جائے تو کورونا کی تباہ کاریوں سے نہیں بچا جاسکتا۔ پاکستان میں کورونا کے کیس چین کے کیسوں سے تعداد میں بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ اس وقت کورونا کی وجہ سے بیمار لوگوں اور مرنے والے افراد کی تعداد کی لحاظ سے مملکت خداداد چودھویں نمبر آگئی ہے۔ ابھی پتہ نہیں بے دلی سے کی جانے والی انسداد کورونا کوششوں سے ابھی ملک میں بیماری کہاں تک جائے گی۔ معیشت کو بھی اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ مگر ابھی بھی حکمران بہت مطمئن ہیں کہ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ ان کی حالت اس مائی کی طرح ہی ہے جس نے ایک لاش کو دیکھ کر کہا تھا کہ شکر ہے آنکھ بچ گئی۔ عام آدمی کے تو جو بھی مسائل ہیں۔ ملکی پارلیمنٹ کے ارکان بھی اس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے کئی ارکان کورونا کے ہاتھوں جان گنوا چکے ہیں۔ قومی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ سینکڑوں ڈاکٹرز ، پولیس اہلکار اور صحافی کورونا کی بیماری میں شکار ہو چکے ہیں۔ درجنوں ڈاکٹر ، ہیلتھ ورکرز ، صحافی اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر بیماری کے بعد واپس آئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر ریلوے شیخ رشید بھی کورونا کا شکار ہوچکے ہیں۔ مگر ابھی بھی ہم سرکاری اور سیاسی سطح پر حالت انکار میں ہیں۔ اب جب کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے کورونا کا مریض نہیں دیکھا۔ حالت انکار سے نکلنے میں ہی عافیت ہے۔ (جاری ہے)