تحریر: محمد لقمان
جنوری 2005 میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں لاہور کے صحافیوں کے وفد نے پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی توخمیدہ کمر اور ہاتھوں میں چھڑی لے کر سب سے ملے اور بتایا کہ بیماری کی وجہ سے ان کو رہا کیا گیا ہے۔ مگر چند دنوں میں ہی وہ ملک سے اڑن چھو ہوگئے ۔ پاکستان کی فضاؤں سے نکلتے ساتھ ہی آصف زرداری کی بیماری دور ہوچکی تھی۔ یوں ان کو کرپشن کے مقدمات سے کئی سالوں کے لئے آزادی مل گئی۔ ان دنوں بھی وہ بیماری کی لاٹھی کا سہارا لے کر بیرون ملک ہیں۔
حال ہی میں وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کی چوہدری شوگر مل کے کیس میں رد وبدل کروانے کے الزام میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سابق چیرمین ظفر حجازی کو سپریم کورٹ کے حکم پر گرفتار کیا گیا تو وہ فوری طور پر بیمار ہوگئے۔ اب وہ جیل کی بجائے اسلام آباد کے ہسپتال سے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔۔ اور ہر طرح تیمارداری کا مزہ بھی ان کے نصیب میں ہے۔
سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کو بیرون ملک علاج کے لئے اجازت ملنا بھی اسی کہانی کا تسلسل ہے۔ بے نظیر قتل کیس اور دیگر کئی مقدمات میں مقدمات سے بچنے کے لئے سابق صدر نے بیماری کا سہارا لیا اور دبئی روانگی کے فوراً بعد ہی اپنی پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت کرتے نظر آئے۔ اسلام آباد میں ایک لمبے عرصے تک چک شہزاد میں اپنے پرتعیش گھر میں نظر بندی اور بعد میں کراچی میں رہائش کے دوران کبھی سیکیورٹی اور کبھی بیماری کے بہانے شاذ و نادر ہی کسی کیس میں عدالت میں پیش ہوئے۔کچھ عرصہ قبل جنرل مشرف کے وکلاء نے ان کی بیماری کا سہارا لے کر ان کو انصاف کے کٹہرے سے بچانے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ آخر ان کی کوششیں رنگ لائیں اور وفاقی حکومت کی طرف سے پیروی نہ ہونے کے بعد عدالت عظمی نے پرویز مشرف کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ عدالتوں اور جیلوں سے بچنے کے لئے ایسے ڈرامے پہلی دفعہ نہیں ہوئے۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی 1993 سے 1996 تک بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے دوران کمردرد کے بہانے پاکستان سے باہر رہے۔ جونہی بینظیر حکومت تحلیل ہوئی تو ان کا کمر درد بھی ختم ہوگیا اوروہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کے لئے پاکستان آ گئے۔سیاستدانوں کے علاوہ دیگر لاتعداد افراد نے بھی بیماری کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر رہائی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جس کسی کو بھی نیب یا ایف آئی اے نے کسی جرم یا اعانت کے الزام میں پکڑا ۔ اس کو فوراً دل کا دورہ پڑ گیا۔ اس کے بعد اس کی منزل جیل نہیں بلکہ امراض قلب کا ہسپتال ہی ہوتا ہے۔
بیماری کا بہانے سے فائدہ اٹھانے والوں میں پینتیس سال تک پاکستانی جیلوں میں قید رہنے والے بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ کا بھی ذکر آتا ہے۔ جس نے مارچ 2008 میں ذہنی بیماری اور اسلام قبول کرنے کا دعویٰ کرکے رہائی حاصل کی۔ اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے انسانی حقوق کے علمبردار انصار برنی کی سفارش پر بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کو معافی دے دی۔ پاکستانی میڈیا سے بے انتہا کوریج حاصل کرنے کے بعد جب وہ واہگہ پار پہنچا تو اس نے نا صرف اپنے مسلمان ہونے کی تردید کی بلکہ بھارتی جاسوس ہونے پر بھی فخر کا اظہار کیا۔
یہاں یہ سوال بیت اہم ہے کہ آخر بیماری کے بہانے پر حکومت اور ریاست کے دیگر ادارے کیسے یقین کرلیتے ہیں۔ بیماری کی آڑ میں سنگین جرائم کرکے بیرون ملک فرار ہونے کا موقع کیوں دیا جاتا ہے۔اس کی واضح وجہ تو ایک ہی ہے کہ اثرورسوخ، طاقت اور پیسے والے کو پاکستانی معاشرے میں پابند سلاسل کرنا اور جرم کی سزا دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ جب تک قانون کے سامنے سب برابر نہیں ہوجاتے پاکستان میں معاشرتی اور معاشی ترقی نہیں ہوسکے گی اور انصاف کے محروم افراد کبھی مجرم اور کبھی دہشت گرد بنتے رہیں گے۔