تحریر: محمد لقمان
سال دو ہزار انیس میں دوبارہ چکوال گیا تو اس بار یو ایس ایڈ کی مدد سے زیتون کے شعبے میں تحقیق و ترقی کا مرکز قائم ہو چکا تھا۔ گویا کہ پاکستان میں وادی زیتون کے قیام کے خواب کی طرف مزید ایک قدم بڑھ چکا ہے۔ پورے خطے کی بات کی جائے تو پچیس لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے خطہ پوٹوہار کی آدھی سے زائد زمین زیر کاشت ہے۔ یہ بات عمومی تاثر سے مختلف ہے۔ جس کے مطابق پنجاب کی تمام زراعت وسطی پنجاب میں ہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوٹوہار میں چھیانوے فی صد رقبہ بارانی ہے۔۔اور صرف چار فی صد نہری ہے۔ ان بارانی علاقوں میں زراعت کے لئے ضروری پانی کی ضرورت ہر سال تین سو اسی سے پانچ سو ملی میٹر تک ہونے والی بارش ہے۔ جس کی وجہ سے گندم، جو، مونگ پھلی، دالوں، پیاز اور تمباکو کی کاشت ہوجاتی ہے۔ اٹک کے علاقے حضرو کا تمباکو تو پنجاب بھر کے حقہ کے شوقین بڑی خوشی سے استعمال کرتے ہیں۔ آخر پوٹوہار میں زرعی ترقی ایک دم تیز کیسے ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حال ہیں تعمیر ہونے والے چھوٹے ڈیمز ہیں جن کی تعداد چھپن ہے۔ اور مزید دس زیر تعمیر ہیں۔ ان چھپن ڈیمز میں سے دو اسلام آباد میں، راولپنڈی میں آٹھ، جہلم میں دس، اٹک میں سولہ اور چکوال میں بیس تعمیر کیے گئے ہیں۔ پوٹو ہار ریجن کے ایک طرف دریائے سندھ اور دوسری طرف جہلم ہے۔ مگر نہری نظام بہت محدود ہے۔ ہارو ا ور سواں سمیت متعدد چھوٹے چھوٹے دریا خطے کے درمیان بہتے ہیں۔اس کے علاوہ سینکڑوں برساتی نالے اور چشمے ہیں۔ چونکہ یہ ندی نالے زمین کی نسبت بہت گہرے ہیں۔ اس کی وجہ سے زراعت کے شعبے کو ان کا کوئی خاص فائد ہ نہیں۔ زیادہ تر فصلوں کی کاشت دریائے سندھ کے قریبی علاقوں میں ہوتی ہے۔
زراعت کے علاوہ جنگلی حیات بھی کثرت سے موجود ہے جن میں اڑیال، چنکارا، خرگوش، نیولے اور جنگلی سور شامل ہیں۔ مگر پھلوں کی کاشت کی وجہ سے علاقے میں زرعی ترقی بڑی ہے۔ کلر کہار کے قریب جہاں آپ کو زیتون کے باغات نظر آتے ہیں وہیں لوکاٹ کے درخت بھی خوبصورتی کا باعث بنتے ہیں۔ خصوصاً اپریل کے مہینے میں جب ان درختوں پر پھل آتا ہے تو ملک کے مختلف علاقوں سے جوق درجوق سیاح آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ پنجاب کی بڑھتی آبادی کو خوراک کی فراہمی کے لئے پوٹوہار ریجن میں بہت پوٹینشل ہے۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ نت نئی زرعی ٹیکنالوجیز کو متعارف کروانے کی۔ اس کے لئے حکومت کے ساتھ کارپوریٹ سیکٹر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔