تحریر: محمد لقمان
پاکستان ميں جب صرف سرکاري ٹي وي ہي تھا تو ہر مرتبہ سياست دان ، کھلاڑي اور اداکار کسي بھي متنازعہ بيان کي صورت ميں میڈیا خصوصاً رپورٹر پر سياق و سباق سے ہٹنے کا الزام لگا کر بري الذمہ ہو جاتے۔چونکہ اخباري صحافت ميں آڈيو ريکارڈنگ کي کوئي روائت نہيں تھی۔ اس ليے بڑے متنازعہ بيانات کے بعد بھي ایسے بیان باز پتلي گلي سے نکل جاتے تھے۔ پيپلزپارٹي کے باني اور سابق وزير اعظم ذوالفقار علي بھٹو کا متنازعہ بيان ادھر ہم، ادھر تم کي صداقت پر بھي اسي وجہ سے ايک سواليہ نشان رہا ہے۔ کئی مرتبہ تو نوابزادہ نصراللہ خان جیسے جید سیاستدان نے بھی غلط بات کہنے پر سیاق و سباق کا سہارا لیا۔ اکيسويں صدي کے آغاز ميں پاکستان ميں نجي ٹي وي چينلز بھي ميدان ميں آگئے۔ جو کہ خبر کي حامل کسي بھي چيز کو اوجھل نہيں کرسکتے تھے۔ يہي وقت تھا کہ جب سياستدانوں اور حتي کہ عام آدمي کے لئے اپنے بيان سے مکرنا مشکل ہوگيا۔ رہی سہی کسر اسمارٹ فون نے پوری کردی ہے۔
پاکستان میں 24 ستمبر کے زلزلے کے بارے میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے بیان پر اس وقت سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی کہا، آن کیمرا کہا۔ اس لیے آئیں بائیں شائیں کی گنجائش تو تھی ، مگر مکر نہیں سکیں۔
فردوس عاشق اعوان نے پاکستان میں آنے والے زلزلے کے بارے میں کہا تھا کہ ’پاکستان میں جب کوئی تبدیلی آتی ہے تو نیچے (زمین میں) بیتابی ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی کی نشانی ہے کہ زمین نے بھی کروٹ لی ہے کہ اس کو بھی اتنی جلدی یہ تبدیلی قبول نہیں ہے۔‘
اگرچہ فردوس عاشق اعوان نے یہ بیان مسکراتے ہوئے دیا تھا لیکن سوشل میڈیا صارفین اور ٹی وی ناظرین کو یہ بہت برا لگا اور انھوں نے اسے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے حس قرار دیا۔
ویڈیو سامنے آنے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے ٹوئٹر پر ہی ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے ۔ مگر ان کی یہ وضاحت موجودہ دور میں کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان کے کئی ایسے بیانات ہیں۔ جو کہ ان کے لئے مشکلات کا باعث بنے ۔ مثلاً 2013 کے انتخابات کے بعد 35 پنکچرز کی باتیں جس کو بعد میں انہوں نے سیاسی بیان قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی۔ 2014 کے دھرنے کے دوران موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی آئی جی اسلام آباد پولیس اور مختلف اداروں کے سربراہوں کو دھمکیاں عمر بھر کے لئے محفوظ ہوچکی ہیں۔ عمران خان کے گذشتہ پي ايس ايل ميں کھيلنے والے غير ملکي کرکٹرز کے بارے ميں ريمارکس بھی ان کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔ عمران خان نے يہ گفتگو صحافيوں کے ساتھ غير رسمي ملاقات ميں کي تھي۔ ليکن ايک صحافي نے موبائل فون پر ريکارڈ کرکے سوشل ميڈيا پر ڈال ديا۔ يوں عمران خان کو عالمي کھلاڑيوں کو پھٹيچر اور ريلو کٹا کہنا بہت مہنگا پڑ گيا۔
سابق وزير اعظم نواز شريف اور ان کے بھائی شہباز شریف لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے بارے میں ماضی میں جتنے بھی بیان دیے۔ مختلف مواقع پر مختلف بیانات کی وجہ سے وہ تنقید کی زد میں رہے۔ پچھلے چھ سات سالوں ميں پاکستان ميں اسمارٹ موبائل فون کے عام ہونے کے بعد تو صورت حال اور بدل گئي ہے۔ اب فوٹيج بنانے کے لئے آپ کے لئے پروفيشنل کيمرہ مين ہونا ضروري نہيں۔ موبائل کے کيمرے کا بٹن دبائيے اور کسي بھي منظر يا گفتگو کو محفوظ کرليں۔ چاہيں تو بعد ميں سوشل ميڈيا کي کسي ويب سائٹ پر ڈال ديں۔ پھر ديکھيں تماشہ۔ معاملہ متنازعہ ہوا تو اليکٹرونک اور پرنٹ ميڈيا بغير حيل و حجت کو اس کو عوام تک پہنچائے گا۔ گويا کہ اب سوشل ميڈيا صحافت کي رہنمائي کرتا ہے۔
پہلے سيانے کہتے تھے کہ پہلے تولو پھر بولو۔ اب يہ بھي ضروري ہے کہ کچھ بھي بولنے سے پہلے يہ ضرور سوچو کہ کوئي الٹي سيدھي بات ریکارڈ ہو کر سوشل اور الیکٹرونک میڈیا تک نہ پہنچ جائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں تو بس آپ پر صرف برا ٹائم ہی آسکتا ہے