تحریر: محمد لقمان
صبح ساڑھے آٹھ بجے ناشتے کے لئے ہوٹل کے ڈائننگ روم میں اکٹھے ہوگئے۔ رات کو پشاور کے چرسی تکہ سے دنبے کا نمکین گوشت کھانے کے بعد ہر کسی کا معدہ بوجھل ہوگیا تھا۔ اس لیے سب نے بڑا لائٹ ناشتہ کیا۔ نو بجے کے بعد گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔ پھاگن کے آغاز میں پشاور کا موسم بہت رنگین ہوگیا تھا۔ آسمان پر بادل اور ہوائیں چل رہی ہوں تو دل کا موسم بھی ٹھیک ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس وقت ابھی پاکستان میں کورونا کا کوئی شور نہیں تھا۔ اس لیے ذہن میں کوئی فکر دامن گیر نہیں تھا۔ دنیا کے آٹھویں عجوبے یعنی بی آر ٹی کے ٹریک کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے چارسدہ روڈ پر آئے۔ بی آر ٹی کا ایک پورا ٹریک بن چکا ہے۔ مگر آخری اسٹیشن کارخانو مارکیٹ ابھی بننا ہے۔ گویا کہ ابھی پشاور میٹرو کا چلنا بھی اتنا ہی دور ہے جتنا کہ دہلی۔ چارسدہ روڈ سے شبقدر کی روڈ پر آئے۔ تو ایسے ٹرک نظر آنے لگے جن پر سنگ مرمر کے بڑے بڑے پتھر لدے ہوئے تھے۔ یہ پتھر ضلع خیبر (سابقہ خیبر ایجنسی ) کے علاقے ملا غوری کے پہاڑوں سے پشاور لائے جا رہے تھے۔ ان پتھروں کو پشاور کے نواحی علاقوں کی فیکٹریوں میں سلیبز بنا کر لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں بھیجا جانا تھا۔ قصہ مختصر کہ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ضلع چارسدہ کے قصبے شب قدر پہنچے۔ یہ وہی شب قدر کا علاقہ ہے جہاں فرنٹیر کانسٹیبلری کے ٹریننگ سکول پر مئی دو ہزار گیارہ میں طالبان کے دہشت گردوں نے حملہ کرکے سو کے قریب زیر تربیت کیڈٹس کو شہید کر دیا تھا۔ ابھی بھی آپ سکول کے صدر دروازے پر ان سب کیڈٹس کی تصاویر آویزاں ہیں جو اس حملے میں جام شہادت نوش کر گئے تھے۔ چارسدہ کے علاقے میں زیادہ تر لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ جہاں سرسوں کے کھیت ہیں وہیں کماد کی فصل بھی اپنے عروج پر تھی۔ شب قدر سے آگے سڑک پر دائیں بائیں قبائلی طرز زندگی نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ آبادی کا گنجان پن بھی کم ہو جاتا ہے۔ یہاں پر آپ کو افغان مہاجرین کے ان کیمپس کے آثار ابھی بھی نظر آتے ہیں جن کو انیس سو اناسی میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد یہاں آباد کیا گیا تھا۔ کئی جگہوں پر ابھی بھی افغانوں کی آبادیاں نظر آتی ہیں۔ مگر پہلے کی نسبت بہت کم ہیں۔ پشاور سے مہمند جاتے ہوئے دریائے کابل سے گذرنا پڑتا ہے۔ جب کہ مہمند ڈیم سے پانچ کلومیٹر پہلے دریائے سوات پر قائم منڈا ہیڈورکس دائیں ہاتھ نظر آتا ہے۔ گویا کہ ہم دریائے سوات کو کراس نہیں کرتے۔ بلکہ دائیں ہاتھ اس کو بہتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جونہی منڈا ہیڈورکس پر پہنچے تو مہمند کے قبائلی علاقے کے پورے خدوخال نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ مٹیالے اور بھورے پہاڑ جن پر ہریالی کا نام و نشان نہیں تھا۔ گویا کہ اب مہمند ڈیم بہت قریب تھا۔