تحریر: محمد لقمان
کوالا لمپور کے ارد گرد چھوٹے شہر: ایک کامیاب تجربہ
ملائشیا جیسے خوشحال ملک کی آبادی 3 کروڑ نفوس سے زائد ہے۔ مگر دارالحکومت کوالالمپور کی آبادی کو سترہ لاکھ تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔ آخر دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے پسندیدہ شہر کی آبادی اتنی تیزی سے کیوں نہیں بڑھ رہی جتنی کہ پاکستان اور بھارت کے بڑے شہروں۔۔لاہور، دہلی ، کراچی اور ممبئی کی بڑھی ہے۔ آبادی کا بڑے شہروں پر دباو کا حل ملائشیا کی حکومت نے بڑے منظم طریقے سے نکالا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنے پچھلے دورحکومت میں دارالحکومت میں آبادی کا سیلاب روکنے کے لئے متعدد منصوبے شروع کیے۔ ارد گرد کے شہروں سے آبادی کی منتقلی کو روکنے کے لئے کوالالمپور کے ساتھ منسلک ریاست سیلانگور میں متعدد چھوٹے چھوٹے شہر آباد کردیے گئے ہیں۔ ان میں بندر سن وے سٹی، شاہ عالم، پتالنگ جایا، سبانگ جایا اور امپانگ شامل ہیں۔ ان شہروں میں الگ سے یونیورسٹیاں، ہوٹل اور دیگر سہولتیں فراہم کی گئی ہیں تاکہ شہریوں کا کوالالمپور کی طرف منتقلی کا رجحان روکا جاسکے۔ کوالالمپور کو ان شہروں کے ساتھ بس سروس اور میٹرو ٹرین کے ذریعے منسلک کیا گیا ہے۔
ان سیٹلائٹ شہروں میں سب سے بڑا شہر شاہ عالم ہے جو کہ ملائشیا کی خوشحال ترین ریاست سیلنگور کا دارالحکومت بھی ہے۔ 1974 میں جب کوالالمپور کو سیلانگور ریاست سے الگ کرکے وفاقی دارالحکومت کا درجہ دیا گیا تو شاہ عالم ریاست کا درالحکومت بن گیا۔ یہ ملائشیا کی 1957 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد منصوبہ بندی کے بعد تعمیر کیا گیا پہلا شہر ہے۔ شاہ عالم کی تعمیر تو سرکاری سطح پر ہوئی۔ مگر کوالالمپور کے نواح میں نجی شعبے نے بھی ایک شہر بسایا ہے۔ بندر سن وے سٹی کی تعمیر میں سب سے زیادہ حصہ صنعتی گروپ سن وے کا ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں ملائشیا کی نجی شعبے کی دو بڑی یونیورسٹیاں۔۔ موناش یونیورسٹی اور سن وے یونیورسٹی ہیں۔ ملائشیا کی سب سے پہلی تفریح گاہ اور تجارتی مرکز سن وے پرامیڈ شاپنگ مال بھی یہیں پر موجود ہیں۔ اسی شاپنگ مال کے باہر اور اندر قدیم مصری تہذیب خصوصاً فراعنہ کے ادوار کی جھلکیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ سن وے کلیو ہوٹل میں ہفتہ بھر قیام کے دوران ہر شام زاہد بیگ اور الماس خان کے ساتھ راقم الحروف کو ڈنر کے بعد اس شاپنگ مال جانے کا اتفاق ہوتا۔ تقریباً ہر بین الاقوامی برانڈ کی مصنوعات یہاں دستیاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز ہزاروں مقامی اور غیر ملکی اس کمرشل سینٹر میں آتے ہیں۔رات کے وقت تو یہاں رنگ و نور کا ایک سیلاب نظر آتا ہے۔ قریب ہی مصنوعی جھیل سن وے لا گون موجود ہے۔ جس میں بچوں کے لئے جھولوں کے علاوہ واٹر پارک بھی سیاحوں کی دلچسپی کا سامان فراہم کرتا ہے۔
سلانگور کے علاوہ سن وے سٹی ملائشیا کی دیگر ریاستوں میں بھی قائم کیے گئیے ہیں تاکہ وہاں کے بڑے شہروں پر آبادی کا دباو کا پڑ سکے۔ پاکستان میں بحریہ ٹاون ایک رہائشی کالونی کے طور پر تو لاہور سمیت مختلف شہروں میں تعمیر کیا گیا ہے۔ مگر اس کا موازنہ کسی طور بھی سن وے سٹی سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کی تعمیر کرنے والے ملائشین صنعتکار جیفری چیاہ میں روپے پیسے کی اتنی ہوس نہیں جتنی کہ مملکت خداداد کے پراپرٹی ٹائیکون میں ہے۔ ملائشین حکومت نے بھی اس چینی النسل سرمایہ کار عزت و تکریم کے کئی خطابات دے رکھے ہیں اور بین الاقوامی طور پر بھی سراہا گیا ہے۔