تحرير محمد لقمان
ماسوک، کيلوار، ٹنڈاس
کوالالمپور کے بين الاقوامي ايرپورٹ پر مقامي وقت کے مطابق ساڑھے چھ بجے لينڈ کيا تو ابھي رات کا ہي منظر تھا۔ لاہور اور امرتسر سے سے آنے والي ملنڈو ايرلائنز کي پروازوں نے ایک ہی وقت پر لينڈ کيا تھا۔ کچھ لوگوں کو پاکستاني سمجھ کر بات کي تو پتہ چلا کہ وہ تو بھارتي پنجاب، يوپي اور راجستھان سے آنے والے مسافر ہيں۔ ان ميں سے کئي تو جھانسي سے آئے تھے۔ جو کہ ہندي کے علاوہ شستہ اردو بھي بول سکتے تھے۔ جب بھی آپ کسي بھي ملائشين ايرپورٹ پر پہنچتے ہیں تو آپ کا استقبال تين الفاظ ضرور کريں گے۔ پہلا سائن بورڈ آپ کو جو نظر آئے گا وہ ٹنڈاس کا ہوگا۔ ٹنڈس ہندي لفظ سنڈاس کا بہن بھائي ہي لگتا ہے۔جس کے معاني بيت الخلا يا ٹائلٹ کے ہيں۔ پاکستاني عوامي مقامات کے برعکس ملائشيا ميں آپ کو ايسي سہوليات بکثرت نظر آتي ہيں۔ آگے چليں تو جگہ جگہ ماسوک اور کيلوار کے بورڈ دکھائي ديں گے۔ ماسوک کا مطلب انٹري يا داخلي راستہ جبکہ کيلوار کا مطلب اخراج يا ايگزٹ ہے۔ اميگريشن پر گئے تو وہاں بڑے کم عمر امگريشن آفيسرز دکھائي ديے جن کی انگلش کی شد بد بڑی واجبی تھی۔ جدہ سے جاري ہونے والے اي ويزا کي وجہ سے کئي سوالات کيے گئے مگر بالآخر لاہور سے جانے والے ہم تينوں جرنلسٹس کو ايک ماہ کا ويزہ مل گيا۔ ہم بائیو ٹیکنالوجی اور کمیونیکیشن کے موضوع پر ہفتہ بھر کی ورکشاپ میں شرکت کے لئے آئے تھے جو کہ کوالالمپور کے نواحی علاقے سن وے سٹی میں ہو رہی تھی۔ سامان کي کليرنس کے بعد ايرپورٹ سے باہر آئے تو —ٹيکسي ليني پڑي جس کا کرايہ ابتدائي طور پر نوے ملائشين رنگٹس بتائے گئے تھے۔ مگر جونہي ہم کوالالمپور کے نواحي علاقے سن وے سٹي ميں واقع اپنے ہوٹل سن وے کليو پہنچے تو ايرپورٹ ٹيکسي کمپني کے ڈرائيور محمد ہادي نے ايک سو تين رنگٹس مانگ ليے۔ وجہ پاکستاني اوبر ڈرائيورز کي طرح سرج ہي بتائي۔ گويا آپ کہيں بھي جائيں تو ٹيکسي ڈرائورز ايک ہي طرح کے ہوتے ہيں۔ ہوٹل کے استقباليہ پر پہنچے تو چيني النسل خاتون ريسپشنسٹ نے بتايا کہ ہوٹل ميں چيک ان چار بجے ہي ممکن ہوگا۔ سوال پيدا ہوا کہ اگلے آٹھ گھنٹے کہاں گذارے جائيں۔ کيونکہ اسٹار بکس کافي شاپ اور ميکڈونلڈ ابھي تک بند تھے۔ اگر کھل بھي جاتے تو وہاں سے ناشتہ کرنا جيب کے لئے بہت بھاري ثابت ہوسکتا تھا۔ اسی طرح ہوٹل کے نواح میں پرامڈ شاپنگ سینٹر بھی گیارہ بجے سے پہلے نہیں کھلنا تھا۔ آخر کریں تو کیا کریں۔ اس موقع پر ساتھی صحافیوں زاہد بیگ اور الماس خان نے مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ ہوٹل میں سامان جمع کروا کر کسی چھوٹے موٹے ریسٹورینٹ سے ناشتہ کرلیا جائے۔ یوں ایک بڑے مسئلے کا حل نکال لیا گیا تھا۔