تحرير: محمد لقمان
پنجاب ميں ادويات سازي اور فروخت کے بارے ميں چاليس سال پرانے قوانين ميں تبديلي کے خلاف فيکٹري مالکان اور ميڈيکل اسٹور چلانے والوں کي طرف سے سخت رد عمل سامنے آيا ہے۔ پنجاب بھر ميں ميڈيکل اسٹورز بند رہے اور مريضوں کو شديد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر اس احتجاج کا حکومت پر کوئي اثر نہيں ہوا اور ڈرگ ايکٹ 1976 ميں تراميم کو گورنر کي منظوري کے بعد قانوني حيثيت مل گئي ہے۔ اب غير معياري دوا کي تياري اور فروخت ، ميڈيکل اسٹورز کي بري حالت اور قوانين کي خلاف ورزي پر جرمانے اور قيد کي سزائيں مزيد سخت کردي گئي ہيں۔ جس کي وجہ سے پنجاب کے ادويہ سازي کے شعبے ميں اضطراب بڑھ گيا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ ادويہ ساز ادارے مزيد پابنديوں اور شرائط کو نا پسند کرتے ہوں۔ مگر ان کي پريشاني کي بڑي وجہ صوبائي محکمہ صحت کے حکام اور اھلکاروں خصوصاً ڈرگ انسپکٹرز کے رويے ہيں۔ ڈرگ ايکٹ 1976 کے تحت ان حکام کے پاس جو اختيارات ہيں ان کا استعمال ہي غلط ہورہا ہے۔ رشوت دو تو غير معياري اور جعلي دوا بھي اصل بن جائے اور جو شخص رشوت نہ دے ۔ اس کے خلاف قانون کي ہر دفعہ کا اندراج ہوجاتا ہے۔ بغير کسي تحقيق اور صفائي کا موقع ديے بغير فارميسي کو تالا لگا ديا جاتا ہے۔ پنجاب کي 114 تحصيلوں ميں ڈرگ انسپکٹرز کام کر رہے ہيں اور ہر تحصيل ميں کئي سو ميڈيکل اسٹورز ہيں۔ انسداد رشوت ستاني پنجاب کے دفاتر ميں آنے والي شکايات سے پتہ چلتا ہے کہ ماسوائے چند ڈرگ انسپکٹرز کے، اکثر اپنے اپنے علاقے ميں ميڈيکل اسٹورز سے ماہانہ وصول کرتے ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ پچاس ساٹھ ہزار ماہانہ تنخواہ حاصل کرنے والے ڈرگ انسپکٹر کے پاس کروڑوں روپے کي جائداديں اور بينک بيلنس ہے۔ ان حالات ميں جب روپيہ پيسہ ہي ادويات کے اصلي يا نقلي ہونے کا تعين کرے، خالص ادويات کي دستيابي کے لئے سزائيں بڑھانا ہي کافي نہيں۔ ايسا ماحول پيدا کرنا بھي ضروري ہے جس ميں نہ کوئي ضمير کو بيچنے والا ہو اور نہ ہي خريدنے والا۔ حکومت کو فارميسي مالکان کے دباو ميں نہيں آنا چاہيے۔ مگر ايسے قوانين بھي بنائے جائيں جس سے قانون کے نفاذ کرنے والے اہلکار اور حکام رشوت نہ لے سکيں۔ پنجاب کے کئي شہروں ميں ميڈيکل اسٹور پر نشہ آور ادويات اور ديگر غير معياري مصنوعات بيچنے کے لئے 30 ہزار روپے کي ماہانہ رشوت کافي ہوتي ہے۔تاہم چھاپے کي صورت ميں يہ رقم لاکھوں روپے تک پہنچ جاتي ہے۔ رشوت دينے والے ميڈيکل اسٹور کے لئے اپنے لائسنس کي ضرورت نہيں۔ وہ کرائے کا لائسنس بھي استعمال کرسکتا ہے۔ گويا کہ رياست کي عملداري تو کہيں نظر نہيں آتي۔مگر ڈرگ انسپکٹر بہادر کسي بھي ميڈيسن مارکيٹ ميں ايک شہنشاہ کي طرح داخل ہوتا ہے اور ہر ماہ کروڑوں روپے کا خراج وصول کرتا ہے۔ گويا کہ پٹواري اور پوليس کے تھانيدار کي طرح ڈرگ انسپکٹر کا عہدہ اور تنخواہ تو بہت زيادہ نہيں۔ مگرسزاوں کے صوابديدي اختيارات کي وجہ سے اس کا رتبہ کہيں اونچا چلا جاتا ہے۔ پنجاب حکومت بھلے سے ادويات سازي کے شعبے ميں سخت سے سخت قانون لائے مگر قانون ميں ايسے سقم بھي ختم کرے جن کي وجہ سے معياري ادويات کي فراہمي تو ممکن نہيں ہوتي مگر ڈرگ مافيا کي طاقت ضرور بڑھ جاتي ہے۔