سچ یہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔لاہور کي آبادي کيسے بڑھي

0
3949
Lahore Versus Karachi

تحریر: محمد لقمان
مردم شماري کے عبوري اعداد شمار جاري ہونے کے بعد ايک بحث چھڑ گئي ہے کہ لاہور کي آبادي 19 سالوں ميں 51 لاکھ سے بڑھ کر ايک کروڑ 11 لاکھ تک کيسے پہنچي جبکہ کراچي کي آبادي 93 لاکھ سے صرف ڈيڑھ کروڑ تک کيسے محدود رہي۔ اس پر وزير اعلي سندھ سيد مراد علي شاہ نے بھي اپنے تحفظات کا اظہار کيا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف، ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی نے مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ تنقيد کرنے والے اس بات کو بھول جاتے ہيں کہ آبادي ميں اضافہ صرف زيادہ بچے پيدا کرنے سے نہيں ہوتا۔ اس سے بھی بڑي وجہ ملک کے ديگر علاقوں سے لوگوں کي ہجرت ہوتي ہے۔ پنجاب ميں ديگر صوبوں کي نسبت امن و امان بہتر ہونے کي وجہ سے کم ازکم پچھلے دس سال ميں کراچي ، پشاور اور کوئٹہ سے ہزاروں افراد لاہور منتقل ہوئے ہيں۔ اس کا واضح ثبوت ڈيفنس اور ديگر پوش علاقوں ميں پراپرٹي کي قيمت ميں بے تحاشا اضافہ ہے۔ جنرل مشرف اور پيپلزپارٹي کے ادوار ميں جب کراچي اور حيدر آباد ميں بدامني انتہا پر تھي ۔ تو سينکڑوں صنعتکاروں نے پنجاب خصوصاً لاہور ميں اپنے صنعتي يونٹس منتقل کرديے۔ جس کي وجہ سے لاکھوں لوگوں کے لئے روز گار کے مواقع پيدا ہوئے۔ اس وقت لاہور کے گردونواح ميں کئ موٹرسائکل اور کار ساز کارخانے ہيں۔ رکشا بنانے والي درجنوں فيکٹرياں ہيں۔ صرف ضلع لاہور ميں اس وقت 30 ہزار کارخانے ہيں۔ جن ميں لاکھوں مزدور کام کرتے ہيں۔ ان مزدوروں کا تعلق صرف پنجاب سے ہي نہيں، سندھ، خيبر پختون خوا، بلوچستان اور آزاد کشمیر سے بھي ہے۔ لاہور ميں جاري ترقياتي کاموں کي وجہ سے ہزاروں افراد لاہور منتقل ہوئے ہيں۔ بہتر تعليمي ادارے اور امن و امان کا ماحول بھي ہر سال لاکھوں افراد کي لاہور منتقلي کي وجہ بن رہا ہے۔
پاک۔بھارت سرحد پر واقع اس شہر کي آبادي مسلسل بڑھ رہي ہے۔ آبادي کے اضافےکے باعث لاہور اپني تاريخي حدود سے نکل کر مشرق ميں بين الاقوامي سرحد کے بہت قريب پہنچ چکا ہے۔ مغرب اور شمال ميں دريائے راوي کے پار بھي اب صرف لاہور ہے۔ جنوب ميں آبادي قصور کے بہت قريب پہنچ چکي ہے۔ بہتر امن وامان کي وجہ سےشہر کی سڑکوں پر غير ملکي بکثرت نظر آتے ہيں۔ سي پيک منصوبے کي وجہ سے چينيوں کے لئے لاہور بھي بيجنگ کي طرح کا شہر بن گیا ہے۔ کسي بھي شاپنگ مال ميں چلے جائيں آپ کو درجنوں چيني خاندان خریداری کرتے نظر آئيں گے۔ اچھے حالات کي وجہ سے بين الاقوامي کرکٹ بھي لاہور ميں آرہي ہے۔ايک ہزار سات سو بہتر مربع کلوميٹر رقبے پر آباد لاہور بڑا غريب پرور شہر سمجھا جاتا ہے۔ جہاں اب بھي پچيس سے تيس روپے ميں بھي ايک وقت کا کھانا مل جاتا ہے۔ اگر کسي کے پاس بالکل پيسہ نہيں تو اس کے ليے داتا دربار سميت مختلف درگاہوں اور درباروں کے دروازے کھلے ہيں۔ اس کے علاوہ مختلف صنعتکاروں اور اہل ثروت حضرات نے دستر خوان قائم کيے ہيں۔ جہاں بڑے اچھے ماحول ميں پورے احترام کے ساتھ مفلس افراد کو کھانا کھلايا جاتا ہے۔ گويا کہ روزگار کے ساتھ ساتھ بغير پيسہ خرچ کيے کھانے پينے کے مواقع بھي موجود ہيں۔ ان حالات ميں لاہور کي آبادي ميں 116 في صد اضافہ کسي طور بھي کوئي ناقابل يقين بات نظر نہيں آتي۔ اس کے برعکس کراچي، پشاور اور کوئٹہ ميں ايسے موافق حالات نہيں ہيں کہ کوئي وہاں بغير کسي مجبوري کے منتقل ہوسکے۔ کراچي اور سندھ کے ديگر بڑے شہروں ميں فوجي حکمران جنرل ضيا الحق کے دور سے جاري لساني اور نسلي بنيادوں پر شروع ہونے والي بدامني ابھي تک کسي نہ کسي طور پر سر اٹھاتي رہتي ہے۔ کراچي ميں 31 سال پہلے تعينات ہونے والے رينجرز فورس کو ابھي تک پوليس کي مدد کے لئے بار بار طلب کيا جاتا ہے۔ گويا کہ پرامن شہر کا تاثر قائم نہيں کيا جاسکا۔ ان حالات ميں آبادي ميں اضافے کے زيادہ امکانات بچوں کي پيدائش کي بنياد پر ہوسکتے ہيں۔ ملک کے ديگر شہروں سے ہجرت کي وجہ سے نہيں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here