سچ یہ بھی ہے۔۔۔۔وبا کے دنوں میں صحافت

0
2377

چڑھ جا بیٹا سولی، پیٹ کی خاطر
تحریر: محمد لقمان
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس چھبیس فروری کو سامنے آیا اور اب تقریباً ستر دنوں میں سولہ ہزار سے زائد پاکستانی کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کا شکار ہوچکے ہیں۔ یقینا ً ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی عملہ فرنٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ مگر اس آفت کے بارے لمحہ بہ لمحہ صورتحال کی خبر دینے والے صحافی بھی تیزی سے اس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔ چند دن پہلے ایک مقامی ٹی وی چینل کے کچھ پروڈیوسرز اور رپورٹرز کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ مگر اب جس قومی یا لوکل چینل میں بھی ٹیسٹ ہوتے ہیں وہاں بہت سارے لوگ مثبت قرار پاتے ہیں۔ گویا کہ آپ اس وقت تک تندرست ہیں جب تک آپ کا ٹیسٹ نہیں ہو جاتا۔ آخر اتنے سارے صحافی ہی اس بیماری کا کیوں شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی سب سے پہلی وجہ تو الیکٹرونک میڈیا کا مزاج ہے۔ کیمرہ مین اور رپورٹرز کو آپ عام حالات میں بھی آپ اس طرف بھاگتے دیکھیں گے جہاں سے لوگ جان بچانے کے لئے راستے ڈھونڈ رہے ہوں۔ بم دھماکہ ہو یا کوئی اور دہشت گردی کا واقعہ، کیمرہ مین اور رپورٹر کو تو وہاں پہنچنا ہی پڑتا ہے۔ مگر ان خطرات کا منبع سب کو نظر آتا ہے۔ مگر اس وائرس کا وجود ہر طرف ہے۔ ہسپتالوں اور بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر تو کچھ زیادہ ہی خطرات ہیں۔ جلسوں ، پریس کانفرنسوں اور دیگر سماجی روابط میں تو اس وائرس سے بچنا ممکن نہیں۔ اگر چہ مارچ کے تیسرے ہفتے سے پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں میں ایک ڈھیلا ڈھالا لاک ڈاون جاری ہے۔ مگر کئی وفاقی اور صوبائی وزرا اپنی سیاست چمکانے کے لئے بھیڑ جمع کرنے سے بھی باز نہیں آئے۔ حال ہی میں ریلوے اسٹیشن پر قلیوں میں راشن تقسیم کرنے کی تقریب ہوئی۔ تو وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے علاوہ ریلوے کے اعلی حکام نے بھی سماجی دوری کے اصولوں کی پروا نہ کی اور ہزاروں قلیوں کو بغیر ماسک پہنے اور فاصلے کا خیال کیے راشن تقسیم کرتے رہے۔ اس موقع پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے پچاس سے زائد رپورٹرز، فوٹو گرافرز اور کیمرہ مین بھی اس بھیڑ میں گھرے رہے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق بھی ایک دن مال روڈ پر لوگوں میں بیس تیس ماسک تقسیم کرنے کے لئے آئے۔ تو میڈیا کے لوگوں نے اس بداحتیاطی سے کارکنوں اور صحافیوں کو ممکنہ نقصان کے بارے میں سوال کیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے گورنر، چیف منسٹر اور دیگر اعلی شخصیات کو وڈیو لنک سے میڈیا سے خطاب کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ مگر کئی مرتبہ اس کی خلاف ورزی بھی ہو جاتی ہے۔ پتہ نہیں ان میں سے کتنے صحافی وہاں سے وائرس ساتھ لے کر آئے۔ اسی طرح رپورٹرز اور کیمرہ مین کے پاس ہسپتالوں ا ور قرنطینہ کے اندر سے لائیو بیپرز دینے کی فرمائشیں آتی ہیں۔ جو کہ کسی طور بھی ان کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتیں۔ مساجد ، سبزی منڈیوں اور رش والی جگہوں پر بھی رپورٹرز جائے بغیر ڈیسک کو خوش نہیں کرسکتے۔ ایک معمولی سے ماسک کے ساتھ کب تک میڈیا کے لوگ وبا کے اس موسم میں موت کے منہ سے رزق تلاش کرتے رہیں گے۔ اس کے لئے حکومت کو صرف صحافی کی موت کی صورت میں دس لاکھ روپے کی امداد کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ ان کی زندگی میں حفاظتی لباس اور دیگر سہوتیں فراہم کرنے میں صحافتی اداروں کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک بھر سے درجنوں صحافی مختلف شہروں کے قرنطینہ میں پہنچ چکے ہیں۔ اور ان حالات میں ان کے اہل خانہ پر کیا گذرتی ہے۔ اس کا اندازہ تو وہی کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں میڈیا ہاوسز کو بھی کچھ دنوں کے لئے ہنگامی حالات کے مطابق اپنے آپ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ورنہ یہ وبا معاشرے کے دیگر افراد کی طرح اہل صحافت کے لئے بھی ایک ڈراونا خواب بن سکتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here