سچ یہ بھی ہے۔۔شیشم کہیں معدوم نہ ہوجائے

0
6025
Decline of Shisham tree in Pakistan.

تحریر: محمد لقمان
آج سے بیس پچیس سال پہلے جب پاکستان کی معروف پاپ سنگر نازیہ حسن نے ’’ٹاہلی دے تھلے بے کے ‘‘جیسا مشہور گانا گایا تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ گانا گانے والی بھی دنیا سے چلی جائے گی اور ٹاہلی یا شیشم کا درخت بھی معدوم ہونے لگے گا۔
انیس سو نوے کی دہائی میں شیشم کے درخت کو لگنے والی بیماری کی وجہ سے اس وقت پنجاب میں لگائے گئے زیادہ تر شیشم کے درخت خشک ہوگئے ہیں۔ جو رہ گئے ہیں وہ اتنے کم ہیں کہ فرنیچر اور دیگر شعبوں کے لئے لکڑی کی طلب پوری نہیں کرسکتے جبکہ شیشم کی لکڑی مضبوط، پائیداور اور لچک دار ہونے کی وجہ سے زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ برصغیر پاک وہند میں انیسویں صدی میں ریلوے کا نظام آیا تو بھاپ والے انجنوں کے لئے ایندھن کی ضرورت بھی محسوس کی گئی۔ اس کے لئے نیپال میں پایا جانے والا شیشم کا درخت چنا گیا۔ شیشم کی کاشت کے لئے پنجاب اور شمالی ہندوستان کے علاقے چنے گئے۔ لاہور سے 75 کلومیٹر دور چھانگا مانگا کے مقام پر مصنوعی جنگل بنایا گیا تو اس میں بھی زیادہ تر درخت شیشم کے ہی لگائے گئے۔ پنجاب میں متعارف ہونے والے اس نئے درخت کو ٹاہلی کے نام سے پہنچانا گیا۔ ایک وقت آیا کہ بدیشی ٹاہلی پنجاب کے دیہاتوں میں ہر خاندان کے دکھ اور سکھ کا حصہ بن گیا۔ دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ فراہم کرتا اور قرضہ اتارنے کے لئے لکڑی فراہم کرتا۔
پھر اس کا استعمال فرنیچر،عمارتی سامان اور بے شمار دیگر اشیائے ضروریہ میں ہونے لگا۔ٹاہلی نہ صرف پنجاب کی ثقافت کا نشان بنا بلکہ اس کا ذکر پنجابی شاعری اور لوک گیتوں میں بھی کثرت سے ملتا ہے۔ ٹاہلی کے درختوں کو سڑکوں، نہروں ، کھیتوں اور باغات کے کناروں پر تقریباً ڈیڑھ سو سال سے کاشت کاشت کیا جارہا ہے۔ سفیدہ اور پاپلر کے درختوں کی نسبت شیشم پانی کا بہت کم استعمال کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیشم کی کاشت ہمیشہ پنجاب کے کسانوں کی ترجیح رہی ہے.
ماہرین جنگلات کے مطابق پچھلے 20 سال میں پنجاب میں بیماری سے متاثر ہونے والے شیشم کے درختوں کی تعداد 55 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ جس سے کسانوں کی کمائی کا ایک بڑا ذریعہ ختم ہونے کو ہے۔شیشم کی قدرتی طور پر براؤن لکڑی میسر نہ ہونے کی وجہ سے فرنیچر سازی کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اور اب عوام اسٹیل اور شیشے سے تیار فرنیچر خریدنے پر مجبور ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی مدد سے پشاور اور گٹ والا فیصل آباد کے تحقیقاتی اداروں کے ساتھ زرعی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے شیشم کی بیماری کی وجہ ڈھونڈ لی ہے اور بیماری سے پاک بیج بھی تیار کرنے کا دعوی کیا ہے۔لیکن شیشم کے درختوں کو جوان ہونے میں کم ازکم 25 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کے دیہاتوں میں شیشم کا درخت دوبارہ گھروں کی زینت بنتا ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں زرعی سائنسدانوں اور دیہی معاشیات کے ماہرین کو بھی اپنا کردار کرنا ہوگا۔ اور محکمہ جنگلات کو بھی ٹاہلی کی دوبارہ کاشت کے لئے بیماری سے پاک قلمیں فراہم کرنی پڑیں گی۔ تبھی ٹاہلی کے نیچے بیٹھ کر دوبارہ پیار کی باتیں ہوسکیں گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here