خواب چوري ہوگئے

0
3595

 تحرير: محمد لقمان

24 اگست کي صبح جب ميں اپنے اہل خانہ کے ساتھ فيصل آباد سے اپنے بھائي کے گھر سے لاہور کے لئے روانہ ہوا تو ميرے گمان ميں بھي نہيں تھا۔ کہ گھر پر زندگي کا بڑا حادثہ منتظر ہے۔ تقريباً ڈھائي گھنٹے ميں لاہور اپنے گھر پہنچ گئے۔ گلی میں گاڑي کھڑي کي اور گيٹ کھولنے کے لئے تالے ميں چابي گھماني چاہي تو وہاں تالہ ہي نہيں تھا۔ کسی نے تالے کو گیٹ سے ہی الگ کردیا تھا۔گيٹ بند ديکھ کر احساس ہوا کہ شايد صرف تالہ ہي توڑا گيا ہے۔ اور کوئي اندر داخل نہيں ہوسکا۔ مگر ميرے بيٹے نے جب دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا ہي چلا گيا ۔ اندر جھانکا تو ٹي وي لاونج کا دروازہ کھلا ملا۔ بيڈ روم ميں تو ايک عجب افراتفري کا منظر تھا۔ ہر طرف کپڑے اور ديگر سامان بکھرا ہوا ۔ پاسپورٹس اور دیگر دستاویزات فرش پر موجود تھیں۔ تمام الماريوں کے تالے ٹوٹے ہوئے تھے اور دراز خالي تھے۔ گويا کہ چوروں کے کسي منظم گروہ نے اپنا کام دکھا ديا تھا۔ جيولري کے خالي ڈبے موجود تھے مگر زيورات کا کوئي نام و نشان نہيں تھا۔ نقدي بھي موجود نہيں تھي۔ چوري کي اس واردات نے ہميں پچاس تولے سونے کے زيورات اور سوا لاکھ روپے کے قريب کيش سے محروم کرديا تھا۔ تيس سال کي محنت و مشقت سے خريدے جانے والي جيولري ہي نہيں گئي تھي بلکہ ايک خاندان کے خواب بھي چوري ہوچکے تھے۔ بيٹي کي شادي کے لئے ماں باپ  کي آنکھوں ميں سجائے خواب بھي چکنا چور ہوچکے تھے۔ ميري محدود آمدني کي وجہ سے بيگم نے بچي کي پيدائش کے بعد سے ہي زيورات بنانے شروع کرديے تھے۔ اب جب کہ اس کي  شادی کا وقت آنے ہی والا تھا۔ تو زيورات کي موجودگي ايک بڑا سہارا تھي۔ ليکن ايک مجرم کی حرکت زندگی کو دوبارہ زیرو پوائنٹ پر لے آئی تھی۔ اب جب کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بھی چند سال کے فاصلے پر ہے تو اتنا سارا زیور بنانا شاید ممکن ہی نہ ہو۔ اگر پولیس مجرمان کو ڈھونڈ کر زیورات واپس دلادے تو شاید بچوں کی شادی دھوم دھام سے ہوجائے ورنہ یہ حادثہ ایک ڈراونے خواب کی طرح میرے خاندان کا پیچھا کرتا رہے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here