نواز شریف اور بینظیر بھٹو میں سیاسی کشمکش
تحریر : محمد لقمان
نواز شریف کی پہلی حکومت بننے کے بعد ہی پیپلزپارٹی کی طرف سے اس کی مخالفت شروع ہوگئی تھی۔ بے نظیر بھٹو کے مطابق مقتدرہ قوتوں نے نواز شریف کو اقتدار میں لانے میں کردار ادا کیا تھا۔ اسی دوران کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم نے بھی بھتہ کی وصولی اور دیگر کاروائیوں کو تیز کردیا تھا۔ ملک کے اقتصادی مرکز میں تخریبی واقعات کو روکنے کے لئے بالآخر جون میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا جس کی قیادت کور کمانڈر کراچی جنرل نصیر اختر نے کی۔ مگر اس کے باوجود بھی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان رسہ کشی میں کمی نہیں آئی۔ اس کا واضح ثبوت نومبر کے مہینے میں پیپلزپارٹی کی چیر پرسن بے نظیر بھٹو کی طرف سے نواز شریف کی حکومت کے خلاف ٹرین مارچ تھا۔ 23نومبر 1992 کی صبح چائنہ چوک لاہور پر واقع اے پی پی کے دفتر پہنچا تو مجھے اور ساتھی رپورٹر مسرت حسین کو لاہور سے راولپنڈی جانے والی ایکسپریس ٹرین کے ٹکٹ تھما دیے گئے۔ ہمیں بے نظیر بھٹو کے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی کوریج کی ذمہ داری دے دی گئی تھی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر دفتر کی ہائی روف وین کے ذریعے پہنچے۔۔۔پلیٹ فارم پر وہ ٹرین پہنچ چکی تھی جس میں بے نظیر بھٹو ، ان کی والدہ نصرت بھٹو اور پیپلزپارٹی کے دیگر سینیر رہنما موجود تھے۔ بینظر بھٹو کے کمپارٹمنٹ میں پہنچے تو وہاں لاہور سے تعلق رکھنے والے کئی صحافی پہلے سے ہی موجود تھے۔ بے نظیر کو پہلی مرتبہ بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔۔ وہ بلاول ، آصفہ اور بختاور سے بہت مختلف تھیں۔ دراز قامت خاتون اپنی گلابی رنگت کی وجہ سے واقع پنکی کہلانے کی لائق تھیں۔ بے نظیر نے سیاست پر بات چیت شروع کی اور بتایا کہ نواز شریف کو کیوں وزیر اعظم کی سیٹ چھوڑ دینی چاہیے۔ ان کے مطابق 1990 کے انتخابات میں مسلم لیگ فراڈ کے ذریعے اقتدار میں آئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں سمیت پوری قوم کو نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے لئے پیپلزپارٹی کا ساتھ دینا چاہیے۔۔یہ طے تھا کہ پیپلزپارٹی کو مقتدرہ حلقوں کی حمایت حاصل ہوچکی تھی۔ اسی لیے وہ پورے اعتماد سے حکومت کو گرانے کے لئے سرگرم ہو چکی تھیں۔۔بلی اور چوہے کا یہ کھیل نیا نہیں تھا۔ 1990میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا بھی ایسے ہی خاتمہ ہوا تھا اور نواز شریف کی باری آئی تھی۔ موجودہ سینیر ٹی وی اینکر اور اس دور کے جنگ کے رپورٹر حامد میر نے از راہ مذاق میرے اور مسرت حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کا تعلق ایجنسیوں سے ہے۔ یہ سنتے ہی بے نظیر بھٹو کے چہرے پر تغیر نظر آیا تو حامد میرفوراً بولے کہ وہ تو مذاق کر رہے تھے۔ یہ تو سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گرچہ کراچی سے لاہور تک آتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سربراہ کو بہت زیادہ پذیرائی نہیں ملی تھی۔ مگر جونہی گوجرانوالہ کے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین پہنچی تو ایک جم غفیر استقبال کے لئے موجود تھا۔ اس وقت کے ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے مطابق ھجوم کی تعداد کسی طور بھی بیس ہزار سے کم نہیں تھی۔بے نظیر بھٹو ٹرین کے دروازے تک آئیں ۔ پارٹی ورکرز کی طر ف ہاتھ ہلایا اور خطاب کرنے کی کوشش کی۔ مگر مجمعے کی طرف سے نعروں کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہ بغیر خطاب کیے ہی واپس ڈبے میں آگئیں اور ٹرین آگے چل پڑی۔ اس کے بعد گجرات میں بھی ٹریک پر بہت بڑا ھجوم ملا ۔ اس وقت تک بے نظیر بھٹو نے اسلام آباد جانے کا ارادہ ترک کردیا تھا۔ گجرات اسٹیشن پر اتر نہ سکیں۔ اس وقت یہی بتایا گیا کہ حکومت نے ڈرائیور کو ٹرین کو وہاں روکنے سے منع کردیا تھا۔ گجرات سے اگلے اسٹیشن لالہ موسی پر پہنچے تو پیپلزپارٹی کے رہنما مشتاق حسین پگانوالہ نے ریلوے ٹریک پر ٹریکٹر کھڑا کردیا۔ یوں بے نظیر بھٹو کو ٹرین سے اترنے کا موقع مل گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور دیگر رہنما راولپنڈی روانہ ہوگئے۔ مسرت حسین ان کے ساتھ ہی آگے چلے گئے۔ جونہی بے نظیر بھٹو لالہ موسی اتریں تو ان کو ایک گاڑی میں گجرات کے سروس کلب میں لے جایا گیا جہاں انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کی اور اپنے آئندہ لائحہ عمل سے آگاہ گیا۔ اگرچہ ٹرین مارچ کے ذریعے بے نظیر بھٹو اپنے اھداف فوری طور پر حاصل نہیں کرسکی تھیں۔ مگر اگلے ایک سال میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار ہوچکی تھی۔