کپاس کی فصل، ملتان کے تحقیقی مراکز
تحریر: محمد لقمان
جنوبی پنجاب کی ہمیشہ سے پہچان اس کی سفید ریشوں والی فصل کپاس رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملتان، بہاولپور اور ڈی جی خان کے ڈویژنز پر مشتمل علاقے کو کپاس کی پٹی کہا جاتا ہے۔ جہاں سے پاکستان کی ستر فی صد سے زائد کپاس کی پیداوار آتی رہی ہے۔ کپاس کی تحقیق کا سب سے بڑا ادارہ سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیو ٹ بھی ملتان میں میں ہے۔ اس شہر میں بطور صحافی قیام کے دوران اقتصادی اور زرعی خبروں کا بڑا ذریعہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام سی سی آر آئی اور پنجاب حکومت کا تحقیقاتی ادارہ کاٹن ریسرچ اسٹیشن رہے۔ ایوب ایگریکلچرل ریسرج انسٹی ٹیوٹ کے ذیلی ادارے کاٹن ریسرچ اسٹیشن گیا تو وہ اس زمانے میں اس کے ڈائریکٹر منیر الدین خان تھے۔ وہ بہت نرم خو اور کم گو آدمی تھے۔ انہوں نے مجھے تحقیقاتی ادارے کے مختلف شعبے دکھائے۔ پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ کپاس کا رنگ صرف سفید نہیں ہوتا۔ یہ نیلی ، کالی اور سرخ بھی ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں سندھ میں سکرنڈ کے تحقیقاتی ادارے کے علاوہ ملتان کے ریسرچ اسٹیشن پر بھی نامیاتی اور رنگدار کپاس کی اقسام کی تیاری کے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔ ان دنوں ابھی پنجاب میں کپاس کی فصل پر پتہ مروڑ وائرس کے حملے بھی جاری تھے۔ اس لیے منیر خان نے اپنے ادارے کی اس سلسلے کی کوششوں کے بارے میں بھی بتایا۔ ان سے بعد میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مگر ہر ملاقات میں ان کا ایک ہی شکوہ ہوتا کہ وفاقی حکومت کے ادارے سی سی آر آئی کو زیادہ اہمیت اور وسائل ملتے ہیں۔ سی سی آر آئی کو زیادہ اہمیت کیوں ملتی تھی۔
اس کا اندازہ کچھ روز بعد سی آر ایس کے ہمسائیگی میں اولڈ شجاع آباد روڈ پر واقع سی سی آر آئی جا کر ہوا۔ ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہور احمد سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت تیز طرار شخص تھے۔ ان کو اپنا چورن بیچنا آتا تھا جبکہ منیر الدین خان بڑے سیدھے سادے بند ے تھے۔ ڈاکٹر ظہور احمد نے کہا کہ ان کے ادارے نے کپاس کی مختلف اقسام پر تحقیق کی ہے۔ اور اچھے استاد کی طرح انہوں نے مجھے کپاس کے شعبے کی مختلف اصطلاحات کے بارے میں تفصیل سے بتایا جن کے بارے میں پہلے مجھے بہت کم علم تھا۔ کپاس کے ریشے کی بڑی خصوصیات میں اس کی لمبائی، اس کی چمک، اس کی مضبوطی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پھٹی سے کتنا بنولہ اور کتنی روئی نکلنی چاہیے۔ اس کے بارے میں بھی انہی سے پتہ چلا۔ پھر انہوں نے نئی قسم سی آئی ایم دو سو چالیس پر تحقیق کے بارے میں بتایا۔ جو کہ نہ صرف زیادہ گرمی اور کم بارش میں بہت اچھی فصل دیتی تھی۔ بلکہ پتہ مروڑ وائرس کا بھی اس پر بہت کم اثر ہوتا تھا۔ ملتان سے لاہور واپس آنے کے بعد دوبارہ بھی ان سے انیس سو پچانوے میں اس وقت ملاقات ہوئی جب سی سی آر آئی کے قیام کی سلور جوبلی تقریب میں شرکت کے لئے مجھے خصوصی طور پر ملتان بھیجا گیا ۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی صدر مملکت فاروق احمد خان لغاری تھے۔