ملتان میں قیام ہوا تمام
تحریر: محمد لقمان
ملتان میں تعیناتی کے ساتھ ہی میں لاہور واپسی کی کوششیں تو شروع کرلی تھیں۔ مگر کوئی بھی شخص ملتان آنے کو تیار نہیں تھا۔ حتی کہ ملتان اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی خواہش تھی کہ وہ اے پی پی کے ہیڈ آفس اسلام آباد میں رہیں۔ بہتر حال نومبر کے وسط میں کوئٹہ سے میرے بیچ میٹ اعجاز شاہ کا فون آیا کہ وہ ملتان آنے کو تیار ہے۔ میں نے پوچھا کہ کتنے دنوں میں جوائن کر سکتے ہو۔ تو اس نے بتایا کہ دو ہفتے تو لگ ہی جائیں گے۔ بہر حال ایک امید پیدا ہوگئی تھی۔ ستائیس نومبر کی شام اعجاز شاہ ملتان پہنچ گئے۔ ان کو دفتر کے ماحول سے مانوس بنانے کے لئے میں نے چوبیس گھنٹوں کے بعد ملتان سے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اٹھائیس کی شام جب میں دفتر سے روانہ ہوا تو پورے اسٹاف نے مجھے الوداع کہا ۔ ملتان کے دو نوجوان صحافیوں نے اصرار کیا کہ وہ مجھے بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر آئیں گے۔ ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر میں کمہاراں والے چوک پہنچا جہاں سے فیصل آباد کی بس میں سوار ہوا۔ ان نوجوانوں کے مجھے نام بھول گئے ہیں۔انہوں نے میری لیے جس محبت کا اظہار کیا۔ اللہ ان کو جز ا دے۔ مجھے آج پچھیس چھبیس سال کے بعد یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کہ میں نے لاہور جانے کی بجائے فیصل آباد اپنے والدین کے پاس جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ یہ فیصلہ بھی عین بس اسٹینڈ پر جا کر ہوا۔ میں رات گئے فیصل آباد پہنچا۔ ماں ابھی جاگ رہی تھیں۔ میں نے دو تین گھنٹے امی کے ساتھ گپ شپ لگائی۔ انہوں نے پوچھا کہ شادی کی تاریخ کب طے کرلیں۔ میں نے حسب سابق ٹال مٹول سے کا م لیا۔ دو ڈھائی بجے تک جاگتے رہے۔ صبح چھ بجے اٹھا ۔ ماں نے ناشتہ بنا کر دیا۔ پوچھا کہ اب دوبارہ کب فیصل آباد آو گے۔ میں نے بتایا کہ کم ازکم ایک ہفتہ تو لگ جائے گا۔ بات سن کر صرف سر ہلایا۔ جواب نہ دیا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ میری اپنی ماں سے آخری ملاقات ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ ملتان سے لاہور کی بجائے فیصل آباد آنے کے فیصلے سے مجھے اپنی ماں سے ملنے کا موقع مل گیا تھا۔ ورنہ ساری عمر یہ خلش ہی رہتی۔ بہر حال میں فیصل آباد سے لاہور روانہ ہوگیا۔ ساڑھے دس بجے کے قریب میں اے پی پی لاہور کے بیورو آفس پہنچا ۔ جائننگ رپورٹ دی۔ ابھی میں ڈیسک کے ساتھیوں کو اپنی ملتان کی پوسٹنگ کا حال سنا رہا تھا کہ رپورٹرز روم سے آفس بوائے بھاگتا ہوا آیا اور بتایا کہ فیصل آباد سے آپ کے بھائی کا بہت ضروری فون ہے۔ میں نے فون اٹینڈ کیا تو بڑے بھائی ڈاکٹر احسان الہی نے بتایا کہ امی جان اب دنیا میں نہیں رہیں۔ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے وہ انتقال کر گئی ہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے دنیا ختم ہوگئی ہے۔ اس موقع پر ساتھی رپورٹرز نے دلاسہ دیا۔ فیاض چوہدری مجھے اپنی گاڑی میں ریلوے اسٹیشن کے سامنے آسٹریلیا چوک لے گئے۔ جہاں سے ان دنوں فیصل آباد کے لئے کوچز چلتی تھیں۔ میں نے کس حوصلے سے ٹکٹ لیا۔ کیسے سوار ہوا۔ کیسے سفر کٹا۔۔۔مجھے کچھ یاد نہیں۔ بس دماغ میں آندھی سی چل رہی تھی۔ فیصل آباد پہنچ کر رکشہ پر سوار ہو کر رضا آباد میں اپنے گھر پہنچا تو ماں کی میت صحن میں چارپائی پر رکھی تھی۔ میرے والد، بھائیوں اور بہنوں نے مجھے تھام لیا۔ میری جنت تو لٹ چکی تھی۔ انتیس نومبر انیس سو چورانوے میری زندگی کا سیاہ دن بن چکا تھا۔