ایک بار پھر فیصل آباد
تحریر: محمد لقمان
اگلی صبح اے پی پی لاہور پہنچا تو اسلا م آباد سے بھیجا گیا ٹرانسفر لیٹر منتظر تھا۔ بیورو چیف نے لیٹر میرے حوالے کیا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اسٹیشن مینجر فیصل آباد ساجد علیم کو اس سے پہلے ہی لاہور بھیجا جا چکا تھا۔ آفس بوائے خلیل احمد کو پری میچور ریٹائرمنٹ کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ آخر اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ کیا ہے۔ خیر اگلے دو دنوں میں مزدا منی ٹرک کا انتظام کیا۔ سامان کو ٹرک میں لوڈ کروایا اور فیصل آباد کے لئے چل پڑے۔ مئی انیس سو چھیانوے میں پیپلزپارٹی کے دور ابھی چونگی کا نظام پنجاب میں مروج تھا۔ لاہور اور فیصل آباد کے درمیان چونگی والوں نے ٹرک کو روکا اور اوکٹرائے کی رقم کا مطالبہ کیا۔ ان کو ٹرانسفر کا لیٹر دکھایا۔ مگر ایسے ان پڑھ کے قسم کے لوگ تھے کہ انہوں نے پیسے وصول کیے بغیر آگے جانے نہ دیا۔ فیصل آباد میں رضا آباد والے گھر کا اپر پورشن ابھی خالی تھا۔ بڑے بھائی ڈاکٹر احسان الہی نے ہمارے واپس آنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ ہم نے اپنی شادی شدہ زندگی کا آغاز اسی گھر میں کیا تھا۔ اور یہ پورشن اپنی نگرانی میں تعمیر کروایا تھا۔ بہت ساری یادیں اس گھر کے ساتھ وابستہ تھیں۔ اگلی صبح مجھے ذیل دار بلڈنگ کچہری بازار میں اے پی پی کے دفتر پہنچ کر اسٹیشن مینجر کا چارج سنبھالنا تھا۔ اس بار مجھے پتہ تھا کہ فیصل آباد میں نوکری اتنی آسان نہیں ہوگی۔ کیونکہ ان سب ملازمین کی بھرتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اے پی پی چوہدری رشید احمد جو کہ بعد میں چیرمین پیمرا کی حیثیت میں ریٹائر ہوئے، نے کی تھی۔ ان میں اکثریت ان کے رشتہ دار وں کی تھی۔ اگلے دن جب دفتر پہنچا تو آفس بوائے خلیل احمد کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوئی۔ پانچ چھ افراد دفتر کے اندر موجود تھے۔ ان کا تعارف ہوا۔ محمد ہارون، قمر اکرام، شفیق اور سیف الرحمان کے مجھے اس وقت نام یاد ہیں۔ دفتر میں کل ملا کر پانچ ہی کرسیاں تھیں۔ ایک اسٹیشن مینجر کی اور باقی دیگر ملازمین کے لئے تھیں۔ میرے آنے پر فیصل آباد کے کئی صحافیوں نے خوش آمدید کہا اور کئی ایسے بھی تھے جو کہ ساجد علیم کے بغیر کسی وجہ لاہور بھیجے جانے پر خفا تھے۔ ڈان کے کاریسپانڈینٹ مرحوم شمس الاسلام ناز سے ملاقات ہوئی تو بڑے تپاک سے ملے اور کہا کہ اگر کوئی مشکل ہو تو ان کے ساتھ رابطہ کروں۔ بزنس ریکارڈر کے کارسپانڈنٹ خالد عباس سیف جن کو فیصل آباد کے صحافی استاد جی کہتے تھے۔ نے بھی میری واپسی پر خوشی کا اظہار کیا۔ خالد صاحب اب دنیا سے چلے گئے ہیں۔ مگر بڑے ہی خوشگوار شخصیت کے مالک تھے۔ کثیر الاولادی کے باوجود بہت ملنسار تھے۔ کئی دفعہ اندرون فیصل آباد میں واقع گھر میں لے جاتے اور دوپہر کا کھانا کھلائے واپس نہ آنے دیتے۔ مگر وہ بھی ساجد علیم کو بہت مس کر رہے تھے۔ میں نے اس سب کو سمجھایا کہ میں خود تو ٹرانسفر کروا کر نہیں آیا۔ سرکاری ملازمت ہے کسی کا بھی پاکستان کے کسی حصے میں تبادلہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے مجھے اس کا قصور وار سمجھنا درست نہیں۔ ابھی میرا فیصل آباد کے دفتر میں پہلا ہی دن تھا کہ مشہور گائناکالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر الطاف بشیر کا قتل ہوگیا۔ سترہ مئی انیس سو چھیانوے کو ان کے گھر پر ڈکیتی ہوئی اور مزاحمت پر ڈاکووں نے قتل کردیا۔ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر احسان الہی اور ڈاکٹر الطاف بشیر کے خاوند میجر ڈاکٹر بشیر احمد چونکہ غلام محمد آباد کے آئی ڈی (ٹی بی) ہسپتال میں اکٹھے کام کرتے تھے۔ اس لیے مجحے اس واقعے کا فوراً پتہ چل گیا۔ میں نے خبر اسلام آبا د بھیجی تو اگلے دن کئی انگلش اور اروو اخبارات میں اے پی پی کی خبر چھپی ہوئی تھی۔ شام کو اپنے گھر واپسی کے لئے چلا تو مجھے اپنے ماتحتوں کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندیدگی نظر نہیں آئی تھی۔ ان کے ساتھ رچنے بسنے میں اگلے کئی دن لگ گئے۔ پہلے دن دفتر سے گھر پہنچا تو والد صاحب بہت خوش تھے۔ ان کا سالہا سال تک پاکستان کے مختلف شہروں میں نوکری کرنے والا بیٹا بالآخر مستقل طور پر ان کے پاس آگیا تھا۔ میری نوکری میں کتنا سکون تھا یا بے چینی تھی۔ اس کا مجھے بالکل اس وقت بالکل اندازہ نہیں تھا۔
(جاری ہے)