خار زار صحافت۔۔۔۔قسط بیالیس

0
2950

 

کاخ چہل ستون ، بے مینار مسجد

تحریر: محمد  لقمان

صبح سویرے ہی  ہوٹل  سے  مبارکہ اسٹیل مل  کے لئے روانہ ہوئَے تو راستے میں  اصفہان شہر  کو قریب سے  دیکھنے کو موقع ملا۔ کئی صدیوں پہلے آباد ہونے والا شہر قدیم اورجدید ثقافتوں  کا  امتزاج تھا۔ اسٹیل مل  پہنچے تو پیداواری سرگرمیاں جاری تھیں۔ مل کی تاریخ اور اس کی ایرانی معیشت میں کردار پرتفصیلی بریفنگ دی گئِی۔  اس سے پہلے کراچی میں پاکستان اسٹیل مل جا چکا تھا۔ آہن گری  کو دیکھنے کا زندگی میں دوسری مرتبہ موقع ملا تھا۔ وہی پگھلتا  ہوا لوہا اور اس سے بنتی مختلف مصنوعات۔ تین چار  گھنٹے اسٹیل مل میں گذارنے کے بعد واپس واپس اصفہان شہر  میں آ گئے۔اگلی منزل کاخ چہل ستون یعنی چالیس ستونوں ولا محل تھا۔ سولہویں صدی میں صفوی خاندان کے پہلے بادشاہ شاہ عباس کے دور میں اس محل اور باغات کی  تعمیر شروع ہوئی۔ اور تقریباً ستر سال میں یہ شاہی عمارتیں مکمل ہوئیں۔ اب وہاں  باغ  تو موجود نہیں ہے۔ مگر کاخ چہل ستون کی شان و شوکت قائم  دائم ہے۔ جیسا کہ نام سے لگتا ہے کہ  اس محل کے چالیس ستون ہیں۔ مگر ایسا ہر گزنہیں ہے۔ اس کے صرف  بیس ستون ہیں جن کا  عکس اس کے سامنےموجود تالاب  میں آتا  ہے  تو چالیس ستون  نظر آتے ہیں۔ اس محل کے طرز تعمیر میں آپ کو چینی، ایرانی اور یورپین فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ سیاحوں کے لئے یہ اصفہان میں سب سے زیادہ دلچسپی کی جگہ ہے۔ ایرانی میزبانوں نے اس عمارت کے بارے میں تفصیل سے بتایا ۔ طویل عرصہ گذرنے کے بعد بھی کاخ چہل ستون کی شبیہ ذہن میں آتی ہے تو ایک عجب مسرت کا احساس ہوتا ہے۔  کاخ چہل ستون سے نکلے تو تھوڑے فاصلے پر موجود ایسی مسجد پہنچے جس کے مینار ہی نہیں تھے۔ سب سے دلچسپ بات جو دیکھنے میں آئِی وہ اس کا تہہ خانہ تھا۔ جس میں نماز کی ادائگی میں اتنے ہی انتظامات تھے جتنے اوپر کی منزل پر۔ نقش جہاں چوک میں واقع مسجد کو صفوی خاندان کے ایک بادشاہ کے سسر شیخ لطف اللہ نے تعمیر کروایا تھا ۔ اس مسجد کے مینار اس لیے نہیں ہیں کہ یہاں صرف خواتین ہی نماز ادا کرسکتی ہیں۔ نماز کی امامت شیخ لطف اللہ کرتے تھے۔ مسجد میں ایرکنڈیشنر تو نہیں تھے اس لیے گرمیوں میں نماز تہہ خانے میں ہی ہوتی تھی اور سردیوں میں اوپر والی منزل پر ۔ ہوٹل واپس آئے تو تہران واپسی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ڈنر کے فوری بعد  ایرپورٹ پہنچے اور ایران ایر کی فلائٹ کے ذریعے واپس مہرآباد ایرپورٹ پر موجود تھے۔ وسطی تہران میں ہوٹل لالہ انٹرنیشنل پہنچے۔ ورکشاپ کے خاتمے کے لئے کاونٹ ڈاون شروع ہوچکا تھا۔ دو روز کے بعد اختتامی تقریب ہونی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here