اے پی پی کے خاندان میں بے تحاشا اضافہ
تحریر محمد لقمان
فیصل آباد سے ٹرانسفر کے بعد لاہور آیا۔ تو بیورو آفس میں درجنوں نئے چہرے دیکھنے کو ملے۔ یعنی جس بھیڑ سے جان چھڑا کر آیا تھا۔ اسی سے لاہور میں بھی واسطہ پڑ رہا تھا۔ اے پی پی کے نئے ملازمین میں کچھ کا تعلق اظہر سہیل کے قصبے نارنگ منڈی اور ضلع شیخوپورہ کے دیگر علاقوں سے تھا۔ باقی سارے فیصل آباد کے دیہی علاقوں سے آئے تھے اور ان میں سے اکثر کا تعلق کسی نہ کسی طور رشید چوہدری سے تھا۔ گویا کہ اے پی پی کے سابق ڈی جی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے درمیان ایک مقابلہ رہا تھا کہ کون اپنے زیادہ رشتہ دار یا جان پہچان والے بند ے اس ادارے میں بھرتی کروائے گا۔ جن لوگوں کو ملک کے بڑے شہروں میں بھرتی نہیں کیا جاسکا تھا ان کی بھرتی رورل کارسپانڈینٹ کے طور پر مختلف قصبوں میں بڑے اچھے پیکج پر ہو چکی تھی۔ فیصل آباد کے ایم این اے الیاس جٹ ( الیاسے جٹ) کے رشتہ داروں کے علاوہ شیخوپورہ کے ایم این اے توکل اللہ ورک کی سفارش پر بھی کئی افراد بھرتی ہوکر اے پی پی سے روزی روٹی کمانے لگے تھے۔ وزارت اطلاعات کے کئی افسران کے رشتہ دار بھی اے پی پی کے پے رول پر تھے۔ اب چائنہ چوک کے ایل ڈی اے فلیٹس میں واقع دفتر چھوٹا نظر آنے لگا تھا۔ جب اے پی پی کی اردو سروس کا آغاز ہوا تو اوپر کی منزل کا ایک فلیٹ بھی کرائے پر لے لیا گیا۔ اے پی پی کا ریونیو تو پہلے ہی کم ہوگیا تھا۔ اب خرچے میں بھی بے انتہا اضافہ ہوچکا تھا۔ کئی ایسے لوگ بھی تھے جو ملازم تو دیگر اخبارات اور میڈیا ہاوسز میں تھے۔ مگر تنخواہ اے پی پی سے بھی مل رہی تھا۔ یعنی یہ ایک ایسا محکمہ بن گیا تھا جس پر ایک تاجے حوالدار کی حکمرانی تھی۔ انگلش سیکشن میں بھرتی ہونے والے افراد سے میل ملاپ ہوا تو کئی ایسے شخص بھی نظر آئے جو واقعتاً اے پی پی میں بھرتی کے لائق تھے۔ ان میں مرحوم ایاز منصور بھی شامل تھے۔ رہنے والے تو وسن پورہ کے تھے۔ مگر بڑے رکھ رکھاو والے۔ شروع میں ان کو ڈیسک پر رکھا گیا تھا۔ جب انہیں اچھے طریقے سے کام کرتے دیکھا تو میں نے بیورو چیف سے انہیں رپورٹرز کی ٹیم میں شامل کرنے کی سفارش کی۔ یوں ایاز منصور ناصر انجم کے ساتھ جونیر کورٹ رپورٹر کے طور پر سامنے آگئے اور ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں سے اچھی خبریں لانے لگے۔ مگر ان کی بدقسمتی کہ کچھ عرصے کے بعد ان کو کینسر ہوگیا اور وہ کئی سال کے علاج کے باوجو د بھی مرض سے چھٹکارا نہ پاسکے اور عالم جوانی میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ باقی لوگوں میں سے بہت کم اچھے صحافی ثابت ہوسکے۔ اسی دوران لاہور چیمبر کی ایک تقریب میں میری دو نوجوان رپورٹرز سے ملاقات ہوئی جو کہ کامرس کی بیٹ کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک روزنامہ اسلام سے منسلک احسن صدیق تھے اور دوسرے روزنامہ خبریں کے محمد الیاس۔ دونوں کی خواہش تھی کہ میں ان کو انگریز ی سے اردو میں خبر بنانا سکھا دوں۔ دونوں ہر روز میرے پاس اے پی پی کے دفتر آتے اور گھنٹوں میری انگلش میں ٹائپ کردہ خبروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرتے۔ جہاں ضرورت ہوتی ، میں ان کی مدد بھی کردیتا۔ میرے اے پی پی کے ساتھی ان کو منکر نکیر کے نام سے پکارنا شروع ہوگئے تھے۔ لیکن دونوں میں سیکھنے کی اتنی دھن تھی کہ انہوں نے کبھی بھی مذاق کا برا نہ منایا۔ آج ماشا اللہ محمد الیاس ایکسپریس ٹی وی کے بیورو چیف ہیں اور احسن صدیق بھی سینیر بزنس رپورٹر ہیں۔ مگر ان کا بڑا پن ہے کہ دو دہائیوں کے بعد بھی مجھ سے پہلے جتنی ہی محبت اور احترام سے پیش آتے ہیں۔