عدالتوں کے چکر
تحریر: محمد لقمان
لیبر کورٹ میں بیس سے زائد افراد نے اے پی پی کے خلاف کیس دائر کررکھا تھا جبکہ ایک کیس فیصل آباد کے ایک سول جج کی عدالت میں بھی تھا۔ ہر ہفتے دونوں عدالتوں میں سے کسی ایک کی تاریخ آ جاتی۔ میاں اقبال نے شروع میں تو بہت سنجیدگی کا مظاہر ہ کیا اور عدالتوں میں جواب دائر کردیے۔ بعد میں جب بحث کا وقت آیا تو عموماً کسی جونیر کو بھیج دیتے۔ گویا کہ فیس لینے کے باوجود بھی ان کے لئے سرکاری ادارے کے لئے کیس لڑنا کوئی سیریس بات نہیں تھی۔ ادھر اے پی پی کی مینجمنٹ بھی ان کیسز میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی۔ ڈائریکٹر جنرل یا مینجر ایڈمن کو جب بھی عدالت نے بلایا تو کسی نہ کسی بنا پر استثنی کی درخواست آجاتی اور اگلی تاریخ لینے کا کہا جاتا۔ اس کے لئے عدالتوں کے ریڈرز کی مٹھی چاپی بھی کرنی پڑتی۔ چونکہ سرکاری اداروں کی طرف سے رشوت دینے کا کوئی رجسٹر نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ پیسے بھی پلے سے جاتے رہے۔ ایک دفعہ تو سول کورٹ میں اگلی تاریخ لینے کے لئے رمضان کے مہینے میں ریڈر کو پیسے دینے پڑے۔ اس وقت فقیروں کی دعا کہ اللہ تعالی ہر کسی کو کورٹ کچہری اور تھانوں سے بچائے، کی صحیح تصویر سامنے آتی رہی۔ میں تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا تھا۔ ایک طرف عدالتوں کے چکر اور دوسری طرف سے مینجمنٹ کی طرف سے دعوی خارج کروانے کا دباو۔ ان حالات کی وجہ سے میری اور ساجد علیم کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ چونکہ موبائل فون نہیں تھا اس لیے پی ٹی سی ایل کے ذریعے سے ہی گھر سے رپورٹنگ ہوسکتی تھی۔ جو کہ اس دور میں ممکن نہیں تھی۔ کبھی کوئی وفاقی یا صوبائی وزیر آ جاتا تو کبھی کسی جرم کی کوریج کرنی پڑ جاتی۔ سپورٹس اور کورٹ کی خبریں بھی فائل کرنی پڑتی تھیں۔ کسی دفتر کے بغیر یہ سب بہت مشکل تھا۔ اس کا پھر حل نکال لیا گیا۔ ساجد علیم کے بڑے بھائی عابد علیم کا اپنا اخبار روزنامہ ملت تھا۔ جس کا دفتر کچہری بازار کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے بہت کارآمد ثابت ہوا۔ ان کے دفتر میں عموماً اخبارات کے صحافی آتے رہتے تھے۔ اس لیے کبھی کسی خبر کی مسنگ نہیں ہوئی۔ وہیں پاکستان آبزرور کے عبدالغنی چیمہ آ جاتے تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہوجاتے۔ ٹیلی گرام کے ذریعے خبر بھیجنی ہوتی تو وہ ہمارا اتھارٹی کارڈ لے جاتے اور خبر اسلام آباد پہنچ جاتی۔ ہم نے وہاں اپنی فیکس مشین بھی رکھ لی تھی۔ کمپیوٹر پر خبر ٹائپ کرتے ۔ اس کا پرنٹ نکالنے اور فیکس کر دیتے۔ انہی دنوں فارغ کیے جانے والے ملازمین نے لیبر کورٹ اور سول کورٹ میں انہیں واپس نہ لینے پر توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کردی۔ جس پر دونوں عدالتوں کی طرف سے ڈائریکٹر جنرل، مینجر ایڈمن اور میرے خلاف بھی توہین عدالت کے نوٹس آگئے۔ جس پر مجھے ہی وکیل کے ساتھ پیش ہونا پڑتا۔ اس کے علاوہ ہم جہاں بھی جاتے تو برطرف ملازمین وہاں پہنچ جاتے۔ کئی مرتبہ تو وہ میرے رضا آباد والی رہائش گاہ کے باہر منڈلاتے دکھائی دیے۔ اس صورتحال سے میر ے گھر والے بھی پریشان ہوئے۔ انہوں نے کئی دفعہ کہا کہ ان کو بتاو کہ جو کچھ بھی کیا وہ تو وفاقی حکومت اور اے پی پی مینجمنٹ نے کیا تھا۔ اس میں تمہارا کیا قصور ہے۔ مگر ان کو کیا بتاتا کہ افسری کی کیا کیا قیمت چکانی پڑتی ہے۔ یہ صورتحال نومبر انیس سو ستانوے میں میر ے لاہور تبادلے تک جاری رہی۔