نواز شریف کے لئے مشکل سال
تحریر: محمد لقمان
نواز شریف کی پہلی حکومت 1993 کے آغاز سے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہوچکی تھی۔ صدر غلام اسحاق خان سے ان بن تھی تو آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ سے بھی کوئی مثالی تعلق نہیں تھا۔ رہی سہی کسر اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو کی حکومت مخالف تحریک نے پوری کردی تھی۔ گویا کہ نواز شریف کے لئے صورت حال ایسی ہی تھی جیسا کہ بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ سجن کوئی کوئی، دشمن ہر کوئی۔ ان حالات کی کافی حد تک ذمہ داری وزیر اعظم کے اپنے رویوں پر بھی آتی تھی۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے رپورٹر کی حیثیت سے تو ان حالات پر لکھنا آسان نہیں تھا۔ مگر آزاد پریس یعنی اردو اور انگلش اخبارات میں جو خبریں آرہی تھیں وہ کچھ حوصلہ افزا نہیں تھیں۔ جنوری کے مہینے میں ہی وزیر اعظم نواز شریف کے لئے برے دنوں کا آغاز ہوگیا۔8 جنوری 1993ء کو بری فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز جنجوعہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث وفات پا گئے۔ مگر ان کی موت نے کئی سازشی مفروضوں کو جنم دیا۔ جنرل آصف نواز کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ ان کی موت سلو پائزننگ سے ہوئی۔ بقول ان کے سلو پائزننگ کی ذمہ دار نواز شریف حکومت خصوصاً چوہدری نثار علی خان اور بریگیڈیر امتیاز تھے۔ اگر چہ بعد میں جسٹس شفیع الرحمان کی سربراہی میں بننے والے سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن نے نواز شریف حکومت کو بے قصور قرار دے دیا۔ مگر حکومت کے بارے میں عوامی رائے بدلنے میں اس واقعے نے اہم کردار ادا کیا۔ آصف نواز جنجوعہ کی موت کے بعد جنرل عبدالوحید کاکڑ چیف آف آرمی اسٹاف مقرر ہوئے جن کو عموماً ایک غیر سیاسی جرنیل سمجھا جاتا ہے۔ مگر حالات ایسے تھے کہ ان کے لئے بھی صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم کے درمیان جاری سرد جنگ قابل قبول نہیں تھی۔ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان رسہ کشی کس حد تک بڑھ چکی تھی۔ اس کا اندازہ مارچ یا اپریل 1993 میں ہونے والی لاہور میں ایک شادی کی تقریب میں صدر مملکت کی میڈیا سے گفتگو سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں مساوات سے منسلک رپورٹر راشد بٹ نے صدر غلام اسحاق خان سے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی حکومت صحیح کام کر رہی ہے۔ اس پر صدر مملکت کا جواب بڑا معنی خیز تھا کہ میں نے کب کہا کہ نواز شریف کی حکومت صحیح کام کررہی ہے۔ اس تقریب میں اے پی پی لاہور سے رپورٹر فیاض چوہدری گئے تھے۔ انہوں نے جب خبر بھیجی تو حکومتی حلقوں میں ھل چل مچ گئی۔ دوبارہ اے پی پی لاہور سے کہا گیا کہ صدر مملکت کے ترجمان سے رابطہ کیا جائے اور اس خبر کی تردید حاصل کی جائے۔ ایک خبر دوبارہ جاری کی گئی جس سے صدر مملکت سے بیان منسوب کیا گیا کہ میں نے کب کہا کہ حکومت صحیح کام نہیں کررہی۔ اگلے دن جنگ میں دونوں خبروں کی کریڈ کا نقش بیک پیج پر اس کیپشن کے ساتھ چھپا کہ سچ کیا جھوٹ کیا۔ فیاض چوہدری پر ھیڈ آفس کی طرف سے خاصا دباو آیا کہ آپ اس شادی میں بغیر دعوت نامے کے کیوں گئے تھے۔ اگر گئے بھی تھے تو یہ خبر فائل کیوں کی۔ اگر آج کا دور ہوتا تو شاید سیاسی افراتفری پیدا کرنے والی اس خبر پر ان کی ترقی ہوجاتی۔
(جاری ہے