خار زار صحافت۔۔۔قسط تینتالیس

0
2555

تہران شہر کی فیروشگاہیں

تحریر:  محمد  لقمان

اصفہان سے تہران واپسی ہوئِی تو سوچا کچھ خرید ہی لیا جائے۔ ورکشاپ میں شریک بھارتی خبر رساں ایجنسی  اے این آئِی کے پاکستانی نمائندے طارق رشید کو ساتھ لیا اور ایرانی دارالحکومت کی فیروشگاہوں یعنی ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کی طرف چل پڑے۔ ایک دکان پر ایک سستا سا کیمرہ خریدا تو سو ڈالر کے نوٹ کا بقایا اتنا ملا کہ ایک لفافہ ہی بھر گیا۔ اس زمانےمیں امریکی ڈالر انتیس روپے کے برابر تھا اور ایک ایرانی ریال دو پاکستانی پیسوں کے مساوی ۔ بھرا لفافے ملنے کی خوشی بہت جلد ختم ہوگئِ۔ اپنی والدہ، بھابھی اور منگیتر کے لئے سکارف خریدے تو نہ صرف ایرانی کرنسی دینی پڑی بلکہ سو ڈالر کا ایک اور نوٹ بھی دکاندار کے پاس چلا گیا۔ بڑا سستا دور تھا۔ شاید چھبیس سال کے بعد تہران جاوں تو کئِ گنا زیادہ رقم خرچ کرنی پڑے۔ ورکشاپ میں شریک ایرانی صحافیوں نے گل آفتاب کی بہت تعریف کی تھی۔ ایک ڈرائی فروٹ شاپ پر گل آفتاب مانگے تو وہ سورج مکھی کے بھنے ہوئے بیج نکلے۔ ہوٹل میں آکر کھانے کی کوشش کی تو مزا نہ آیا ۔ اگلی صبح ایک ایرانی صحافی کو دیے تو اس نے شکریے کے ساتھ لے لیے۔تہران کی سڑکوں پر چلتے ہوئے مغربی ملبوسات کی سبز قبا نامی دکان پر نظر پڑی تو سوچا ایک سوٹ خرید لیا جائے۔ کالے رنگ کا ایک سوٹ خریدا جو کہ میں نے اگلی صبح ورکشاپ کی اختتامی تقریب میں پہنا۔ ہوٹل واپس آتے ہوئے ایک پرفیوم بھی خرید لیا۔ تہران شہر کی سیر کے دوران ہم نے تاکسی تہران میں سفر کیا جس کا کرایہ کافی قابل برداشت تھا۔ ہوٹل واپس آئے۔ ڈنر کیا اور جلد سو گئے۔ اگلی صبح ورکشاپ کی اختتامی تقریب میں صبح سویرے پہنچنا تھا۔ پانچ گھنٹے نیند کے بعد ہی جاگ آگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوٹل ملازم نے کمرے کے دروازے کے نیچے تہران ٹائ٘مز اور کیہان انٹرنیشنل اخبارات پھینک دیے۔ کامل دو گھنٹے اخبارات پڑھے اور نیچے لابی میں آگیا۔ طارق رشید اور ورکشاپ کے دیگر شرکا آئے تو ناشتے کے لئے ملحقہ کیفے میں چلے گئے۔ اس دوران ارنا ہیڈ کوارٹرز لے جانے کے لئے بسیں بھی آچکی تھیں۔ ناشتے کے بعد بسوں کے ذریعے سیدھا آڈیٹوریم لے جایا گیا ۔ ارنا کے مینجنگ ڈاَئریکٹر مہدی نژاد آ چکے تھے۔ اب شرکا کا تعارف کروایا گیا۔ تقریب شروع ہوئِی تو پہلے دن کی طرح اس روز بھی کمپیر نے تقریب کا آغاز بانوان و مردان و خبرنگاران ارشد سے کیا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ خبرنگاران ارشد کا مطلب سینیر جرنلسٹس ہے۔ آغا مہدی نژاد نے سب میں سرٹیفکیٹس تقسیم کیے۔ اپنے خطاب میں تمام شرکا کے لئے نیک خواہشات  کا اظہار کیا۔ ہوٹل واپس آنے لگے تو سب کو پریسٹن نامی امریکی ماہر معاشیات کی ڈویلپمنٹ کے موضوع پر ایک ایک کتاب دی گئی۔ ورکشاپ میں پڑھایا گیا تمام مٹیریل کتابی شکل میں فراہم کیا گیا جس کے ساتھ تصویروں کا البم بھی تھا۔ گویا کہ اب جدائی کا وقت آچکاتھا۔ ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here