جب بل کلنٹن پاکستان آیا
تحریر: محمد لقمان
اکتوبر انیس سو ننانوے کے فوجی انقلاب کے بعد کئی ماہ تک پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار رہا۔ رہی سہی کسر دسمبر میں بھارتی جہاز کے اغوا کے بعد کی صورت حال نے پوری کردی تھی۔ مگر فروری دو ہزار میں امریکی صدر کے دورہ جنوبی ایشیا کے اعلان کے بعد ایک امید پیدا ہوئی کہ شاید اب پاکستان کے بین الاقوامی برادری میں تاثر میں بہتری آ جائے گی۔۔ لیکن مارچ کے تیسرے ہفتے میں صدر بل کلنٹن کے دفتر کی طرف سے جاری شیڈول نے پاکستانی امیدوان پر گھڑوں پانی ڈال دیا۔ امریکی صدر کا بھارت میں قیام پانچ دن جبکہ بنگلادیش میں ایک دن کا دورہ تھا۔ اس پورے شیڈیول میں پاکستان کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسی دوران جموں کشمیر کے علاقے چھٹی سنگھ پورہ میں پینتیس سکھوں کے قتل کی وجہ سے پاکستان کے خلاف بھارتی پراپیگنڈہ عروج پر پہنچ گیا تھا۔اس سے نئی دہلی کے لئے مغربی ہمدردیاں مزید بڑھ گئی تھیں۔ جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان میں کسی امریکہ صدر میں آمد کبھی کسی معجزے سے کم نہیں ہوتی۔ پاکستانی حکمران 1947 سے امریکا کے چالیس سے زائد دورے کر چکے ہیں۔ مگر گذشتہ چوہتر سالوں میں صرف 5امریکی صدور نے کراچی، اسلام آباد اور لاہور کا دورہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام پانچ جمہوریت نوازامریکی صدورپاکستان کے فوجی حکمرانوں کے مہمان بنے۔ پانچ امریکی صدور میں ڈوائٹ آئزن ہاور پہلے امریکی صدرتھے جنھوں نے 1959میں پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی میں قیام کے دوران ان کے میزبان فوجی حکمران جنرل ایوب خان تھے۔ صدرایوب خان سے ملنے کے لٗے لینڈن بی جانسن 23دسمبر1967کو کراچی آئے۔ 1962میں امریکی خاتونِ اول جیکلین کینیڈی کو بھی اسی پاکستانی جنرل، جو اقتدارمیں تھے، کے ساتھ کراچی کی گلیوں میں سفرکرتے دیکھاگیا۔ لہذا ایوب خان اپنے دورِ اقتدارمیں دو امریکی صدور اور ایک خاتونِ اول سے یہاں ملے۔ 1969میں یکم اور دو اگست کو رچرڈ نکسن پاکستانی صدر یحیٰ خان سے ملنے لاہورآئے۔ 25مارچ 2000کو بل کلنٹن اس وقت کے پاکستانی صدر رفیق تارڑ اورآرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے ملنے پاکستان آئے۔ 3سے4مارچ 2006کوجارج ڈبلیوبُش پاکستان دورے پر آئے اور جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی، اس کیعلاوہ اس وقت کے پاکستانی کرکٹڑزانضمام الحق اورسلمان بٹ کیساتھ کرکٹ بھی کھیلی۔ بہر حال بات ہو رہی تھی امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ جنوبی ایشیا کی۔ دورہ بھارت کے آغاز کے ساتھ ہی اطلاع آ گئی کہ امریکی سربراہ مملکت پاکستان بھی آئیں گے۔ مگر دورہ ہوگا صرف پانچ گھنٹے کا۔ اس کو بھی سرکاری دورے کی بجائے اسٹاپ اوور کا نام دیا گیا۔ صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری عرفان صدیقی کی کئی سال بعد شائع ہونے والی یادداشتوں کے مطابق تئیس مارچ کو ہی ایوان صدر میں امریکی فوجی اہلکار آنا شروع ہوگئے تھے اور ایوان صدر کا عملی طور پر کنٹرول سنبھال لیا گیا تھا۔ دورے کے لٗے پہلے پاکستان سے کئی شرائط منوائی گئی تھی۔ جن میں بقول عرفان صدیقی صاحب مندرجہ ذیل شرائط اہم تھیں۔
ہوائی اڈے پر کوئی رسمی استقبالیہ تقریب نہیں ہوگی۔
دفتر خارجہ کے دو تین متعلقہ عہدیداروں کے سوا کوئی ہوائی اڈے پر نہیں آئے گا۔
ایوان صدر کے احاطے میں بھی کوئی استقبالیہ تقریب نہیں ہوگی۔
یہاں صدر رفیق تارڑ، صدر کلنٹن کا استقبال کریں گے۔ پرویز مشرف یا دیگر اعلی فوجی عہدیدار نہیں آئیں گے۔
سرکاری ریڈیو اور ٹی۔ وی کے سوا پرائیویٹ میڈیا کو اجازت نہیں ہوگی۔
ظہرانے میں جنرل مشرف شریک ہوں گے لیکن نہ تو صدر کلنٹن کو مشرف سے ہاتھ ملاتے دکھایا جائے اور نہ ہی دونوں کی ایک ساتھ کوئی تصویر بنے۔
صدر کلنٹن قوم سے خطاب بھی کریں گے۔ اس کے ضروری انتظامات کرلئے جائیں۔
صدر بل کلنٹن کی اسلام آباد آمد پر سرکاری میڈیا خصوصاً اے پی پی نے بڑی نپی تولی خبر جاری کی۔ ان کا استقبال ایوان صدر میں صدر رفیق تارڑ نے کیا۔ جو کچھ بھی بعد میں سامنے آیا وہ پی ٹی وی اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں سے عوام تک پہنچا۔ بعد میں صدر بل کلنٹن کا ریڈیو اور ٹی وی پر خطاب عوام میں اضطراب کا زیادہ باعث بنا ۔ کیونکہ اس میں نذارت کا عنصر زیادہ تھا بشارت کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ پاکستان اور اس کی قوم کو زیادہ تر ڈرایا یا دھمکایا ہی گیا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ سلطنت برطانیہ کے دور میں کوئی وائسرے اپنی رعایا کو دھمکا رہا ہے۔ اسلام آباد کی عوام کو گھروں میں پانچ گھنٹے قید کرکے بل کلنٹن کا دورہ ممکن بنایا گیا۔ کلنٹن کا دورہ تو ختم ہوگیا مگر پاکستان سے متعلق مغربی دنیا کی بے اعتنائی ختم نہ ہوسکی۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ ایسا ہی رویہ پچھلے چوہتر پچھتر سال میں رہا ہے۔