خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو نو

0
814


لاہور کی فضاوں میں دھند کب بڑھی
تحریر: محمد لقمان
سال دو ہزار کا دسمبر بھی بہت زیادہ دھندلا ثابت ہوا۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسمیاتی تغیر نے رتوں کو ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ لاہور میں تو خاص طور پر نومبر کے آخری ہفتے میں ہی خشک موسم اور سردی کی وجہ سے صبحیں اور شامیں دھندلی ہونی شروع ہو چکی تھیں۔ مگر دسمبر کے مہینے میں تو معاملات مزید بگڑ گئے۔ تاریخی طور پر دھند پنجاب کے میدانی علاقوں میں ہر سال موسم سرما میں چھاتی رہی ہے۔ اور اس کی اپنی ہی رومانوی حیثیت ہے۔ مگر انیس سو نوے کی دہائی کے وسط میں اس کی شدت اور طوالت میں اچانک اضافہ ہوگیا اور اس سے روڈ اور جہاز کا سفر تو بری طرح متاثر ہونے لگا۔ اسی وجہ سے دھند کے موسم میں حادثات بھی بڑھ گئے۔ سب سے خوفنا ک فضائی حادثہ انیس سو اٹھانوے کے دسمبر کے وسط میں ہوا جب ایک ہیلی کاپٹر لاہور کے علاقے بھٹہ چوک میں دھند کی وجہ سے ایک عمارت سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔ اور اس میں سوار درجن سے زائد پنجاب حکومت کے افسران جن میں زیادہ تر کمشنرز اور ڈی آئی جیز شامل تھے، جاں بحق ہوگئے۔ صرف ایک افسر طارق فاروق بچے۔ اسی ھیلی کاپٹر میں جاں بحق ہونے والوں میں لاہور چیمبر میں شعبہ تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر سجاد حیدر بھی تھے۔ جو کہ ان دنوں پنجاب حکومت کی ایک ٹاسک فورس کے چیرمین تھے۔ دسمبر دو ہزار میں دھند کی وجوہات اور اس کے نقصانات اور فوائد پر ایک فیچر لکھا جو کہ ملک بھر کے اردو اور انگریزی اخبارات میں اے پی پی کی کریڈٹ لائن اور میری بائی لائن کے ساتھ چھپا۔ مگر صرف انگریز ی اخبار ڈان کے لاہور میں ایک رپورٹر نے اس کو اپنے نام سے چھاپ دیا۔ پوچھا کہ اے پی پی کی ایکسکلوژو سٹوری کو چوری کیوں کیا گیا تو جواب ملا کہ میری مرضی۔ سن دو ہزار کا اختتام انتہائی دھند میں ہوا تو سال دو ہزار ایک کا آغاز بھی اتنا ہی دھندلا تھا۔ انہیں دنوں ورلڈ بینک نے وسط جنوری میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں اقتصادی صحافیوں کے لئے چھ روزہ تربیتی ورکشاپ کرانے کا فیصلہ کیا تو اس کے لئے اے پی پی نے میرا نام بھیج دیا۔ ورکشاپ کا لمز میں آغاز تو سولہ جنوری کو ہونا تھا۔ مگر اس سے پہلے تین روز کا پروگرام اسلام آباد میں بھی کرانے کا اعلان کردیا گیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ لاہور میں ان دنوں صبح اور شام کو اتنی دھند رہی کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے شرکا اسلام آباد میں نہ جاسکے اور سولہ جنوری کو لمز میں ہی اس ورکشاپ کا حصہ بنے۔ جس میں ملک بھر کے اخبارات ، نیوز ایجنسیز ، میگزینز اور پی ٹی وی سے تعلق رکھنے والے سترہ صحافی شریک ہوئے۔ راقم الحروف کے علاوہ ابصار عالم، ندیم ملک، حارث ضمیر، طاہر ڈھنڈسہ، ذوالفقار علی مہتو، مرحوم حسیب حیدر، طاہر راٹھور، صابر شاہ ، ثنا احمد اور دیگر شامل تھے۔ ان میں اس وقت کویئی بھی اینکر نہیں تھا۔ سارے کے سارے اکنامک رپورٹرز ہی تھے۔ الیکٹرونک میڈیا کے فروغ کے بعد ان میں سے بہت سارے لوگوں کی بھی ترقی ہوگئی۔ چھ روز کے پروگرام میں وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی ٹموتھی کیرنگٹن کے علاوہ لمز کے اساتذہ کو ہماری تربیت کا مشکل ترین کام سونپا گیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here