خار زار صحافت۔۔۔قسط اڑسٹھ

0
1818

کچھ خالد کھرل کی یادیں

تحریر: محمد لقمان
بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں خالد خان کھرل وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات تھے۔ ان کا تعلق ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قصبے کمالیہ سے تھا۔ پہلے تو کمالیہ کی پہچان اس کا کھدر تھا۔ مگر سیاست میں آنے کے بعد خالد کھر ل بھی اس کی جان پہنچان کا ذریعہ بن گئے۔ انیس سو چھیانوے میں جب فیصل آباد تبادلہ ہوا تو وفاقی وزیر اطلاعات کی کوریج بھی میر ی ذمہ داری بن گئی۔ تقریباً ہر ہفتے کمالیہ جانا پڑتا۔ کم ازکم دو راتیں تو اس دور افتادہ علاقے میں گذارنی پڑتیں۔ ٹرانسپورٹ کی فراہمی کی ذمہ داری پریس انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ کی تھی۔ جس کا دفتر ان دنوں فیصل آباد کے علاقے گلستان کالونی میں تھا۔ اور ادارے کے ریجنل ڈائریکٹر ایک بلوچ نصیر احمد رند تھے۔پہلی دفعہ کمالیہ جانے کا اتفاق ہوا تو رہائش کے بارے میں بڑی پریشانی ہوئی۔ کبھی کہا گیا کہ کمالیہ شوگر ملز کے ریسٹ ہاوس میں ٹھہریں گے تو کبھی آواز آئی کہ محکمہ آبپاشی کا ریسٹ ہاوس مقدر بنے گا۔ بالآخر جگہ محکمہ آبپاشی کے ریسٹ ہاوس میں ہی ملی۔ وزیر موصوف بلاشبہ زمیں دار اور ایک ٹیکسٹائل مل کے مالک تھے۔ اور بیوروکریٹ بھی رہ چکے تھے۔ مگر ان کو بھی صرف سرکاری خرچے میں ہی مزہ آتا تھا۔ ایک پٹواری کو ہمارے لیے کھانے کے انتظام کی ذمہ داری دے دی گئی تھی۔ پہلے روز تو اس نے مرغی کا انتظام کردیا۔ مگر دوسرے روز ہی اچار کا ایک مرتبان لے کر آگیا۔ کہنے لگا کہ فیصل آباد میں تو آپ چکن کھاتے رہیں ہوں گے۔ مگر اچار کمالیہ کی خاص سوغات ہے۔ اس پر ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے پروڈیوسر محمد طارق کا بڑا دلچسپ تبصرہ تھا کہ ویکھنا اگلی واری پیاز یا لون مرچ لیائے گا تے کہے گا کہ ایہہ کمالیے دی سوغات اے ( اگلی دفعہ یہ پیاز یا نمک مرچ لائے گا اور کہے گا کہ یہ کمالیے کی سوغات ہے) ۔ بہر حال کھلی جگہ پر اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے وسیع و عریض ریسٹ ہاوس میں رہنے کا اپنا ہی مزا تھا۔ خالد کھرل عموماً کمالیہ کے اردگرد کے دیہات جاتے تو کبھی کبھار پیر محل اور ٹوبہ ٹیک سنگھ جانے کا بھی موقع مل جاتا۔ اگر ٹوبہ ٹیک سنگھ کو کلی طور پر دیکھا جائے تو ترقی کے لحاظ سے اس زمانے میں یہ لاہور اور فیصل آّباد سے بہت پیچھے تھا۔ انیس سو بیاسی سے پہلے یہ فیصل آباد کی تحصیل تھا مگر بعد میں اس کو ضلع بنا دیا گیا۔ مگر ٹوبہ ٹیک سنگھ کو دیکھنے کے مجھے احساس ہوا کہ اگر یہ فیصل آباد ضلع میں ہی رہتا تو شاید زیادہ ترقی کر جاتا۔ اس کی ایک تحصیل گوجرہ تجارتی لحاظ سے اپنے ضلع ہیڈکوارٹرز سے بہت بہتر ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ضلع وہاڑی میں تحصیل بوریوالہ کا مقام ہے۔ قصہ مختصر جب بھی وزیر اطلاعات کی گاڑی کسی گاوں میں رکتی تو سرکاری میڈیا کے ارکان کو بھی فوراً وہاں رکنا پڑتا۔ پی ٹی وی کا کیمرہ مین فوٹیج بنانے میں مصروف ہو جاتا اور اے پی پی اور ریڈیو پاکستان کے رپورٹرز نوٹس بنانے لگتے۔ کئی مرتبہ بڑی عام سی باتیں ہوتیں مگر خبر کو قومی سطح کا رنگ دینا ہوتا تھا۔ جب کسی مقام کا وزٹ ہوجاتا تو وزیر اطلاعات ہمارے پاس آتے اور گاوں اور افراد کے نام بتا دیتے۔ اب خبر کو گھڑنا میرا اور ریڈیو پاکستان کے محمد طارق کا کام ہوتا تھا۔ ایک دن ملکی سیاست کے بارے میں خبر بناتے تو اگلے روز معیشت یا زراعت کے بارے میں وزیر محترم کا بیان داغ دیتے۔ جس کا عموماً خالد کھرل کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا تھا۔ ان کو اس وقت پتہ چلتا جب پی آئی ڈی کا نصیر رند خبروں کی کٹنگز سے اے پی پی کی کریڈٹ لائن کو کو سیاہی سے مٹا کر اپنے ادارے کی طرف سے فائل پیش کردیتا۔ کئی دفعہ تو ایسے بھی ہوا کہ خالد کھرل نے کسی زمیندار کے ڈیرے پر اس کی کتیا کے بچوں کے بارے میں بات کی یا کئی ماہ پہلے مرنے والے فرد کی فاتحہ خوانی کی مگر خبر میں یا تو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی بصیرت کی بات ہوتی یا نواز شریف پر تنقید۔ گویا کہ یہ ایک فارمولہ خبر تھی جو کہ سرکاری میڈیا جاری کرتا تھا۔ میں کئی دفعہ اس صورت حال پر کڑتا مگر کیا کر سکتا تھا۔ ہر نئے سلطان کی تعریف کرنا اے پی پی کی ذمہ داری تھی۔ خالد کھرل کے علاوہ بھی مجھے کئی وزرائے اطلاعات کے ساتھ کام کرنے کو موقع ملا۔ مگر خالد کھرل کی باتوں سے صحافیوں کو کبھی بڑی خبر نہیں ملی تھی۔ عموماً مخالفین خصوصا نواز شریف کے بارے میں ان کا جانگلی لہجے میں تبصرہ ہوتا۔ جس کو ہر خبرنویس اپنے مزاج کے مطابق خبر کے قالب میں ڈال لیتا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here