خار زار صحافت۔۔۔قسط انچاس

0
2237

ندامت کی رات
تحریر: محمد لقمان
فیصل آباد میں تعیناتی کے آخری دنوں میں ایک عجیب واقعہ ہوگیا جس کو چھبیس سال کے بعد بھی بھلا نہیں پایا۔ کچہری بازار چوک میں ذیل گھر میں اے پی پی کے دفتر میں ایک شام گھر واپسی کے لئے پر تول رہا تھا کہ انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے بزرگ صحافی سردار محمد اختر آگئے۔ ان کے ساتھ دیگر انگریزی اور اردو اخبارات کے نمائندے بھی تھے۔ کہنے لگے کہ چناب فیبرکس کے مالک میاں لطیف نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ایک وفد کے اعزاز میں ایک عشائیہ کا سرینا ہوٹل میں انتظام کیا ہوا ہے۔ انہوں نے پورے میڈیا کو آنے کی تاکید کی ہے۔ آئیں چلتے ہیں۔ ایک دو گھنٹوں میں فارغ ہو جائیں گے۔ یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کی کون سی بیوی ہے۔ جو آپ کا انتظار کرے گی۔ میں نے بھی اپنے والدین کو لینڈ لائن فون پر بھی ممکنہ دیر ہونے کے بارے میں آگاہ نہ کیا۔ یہی سوچا کہ دو گھنٹوں میں فارغ ہوجاوں گا۔ بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ تقریباً آٹھ بجے سیرینا ہوٹل پہنچ گئے۔ ڈنر تقریباً نو بجے شروع ہوا۔ ً آدھے گھنٹے میں کھانے سے فارغ ہوئے۔ گھر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو ساتھیوں نے کہا کہ ایک چھوٹا سا میوزک شو بھی ہے۔ جس میں ایک نئی گلوکارہ سائرہ نسیم پرفارم کریں گی۔ میوزک شو شروع ہوا۔ ایک گانے کے بعد دوسرے گانے کی فرمائیش ہونے لگی۔ آخری گانا ختم ہوا تو رات کے دو بج چکے تھے۔ اس وقت میرے پاس ہونڈا سی ڈی سیونٹی تھی۔ موٹر سائکل پر ابھی کلب چوک ہی پہنچا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ تیز بارش میں موٹرسائکل بھی نہیں چل رہی تھی۔ تقریباً آدھے گھنٹے میں رضا آباد کے قریب فرید کالونی میں اپنے گھر پہنچا۔ تالے میں چابی گھمائی ۔ دروازہ کھلا تو سامنے ایک عجب منظر تھا۔ دروازے کے ساتھ میری ماں کرسی پر بیٹھی ہوئی میرا انتظار کر رہیں تھیں۔ اس وقت ان کی عمر چھیاسٹھ سڑسٹھ سال تھی۔ مجھے انہوں نے دیر سے آنے پر سرزنش کرنے کی بجائے صرف پوچھا کہ کھانا لاوں۔ میں نے جب ان کو بتایا کہ امی جی میں تو ہوٹل سے کھانا کھا آیا ہوں تو انہوں نے صرف اچھا کہا۔ جس پر مجھے اتنی ندامت کا احساس ہوا کہ میں ان سے مزید کوئی بات کیے بغیر اپنے بستر پر چلا گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے اپنی باقی زندگی کے دوران کبھی بھی اس رات کو دیر سے آنے کا طعنہ نہیں دیا۔ ان کی وفات چند ماہ کے بعد نومبر انیس سو چورانوے میں ہوگئی۔ اس رات کے بعد میں نے ہمیشہ گھر والوں کو بتائے بغیر باہر کھانا کھانے سے احتراز ہی کیا ہے۔ کئی مرتبہ میرے دفتر کے ساتھی اور دیگر دوست اس بارے میں پوچھتے ہیں کہ رات کو دیر تک کام ہونے پر گھر والوں کو کیوں اطلاع دیتے ہو تو اکثر ادھر ادھر کی بات کردیتا ہوں۔ ان کو کیا بتاوں کہ میں نے ایک رات کی تماش بینی کی وجہ سے اپنی ماں کو کتنا دکھ دیا۔ اور انہوں نے بڑھاپے میں بارش کے موسم میں دروازے کے ساتھ لگ کر کتنا انتظار کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here