پہلی گلف وار
تحریر: محمد لقمان
اے پی پی ہیڈکوارٹر میں تین ماہ کی تربیت کے دوران جہاں ملکی سیاست میں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں وہیں بین الاقوامی سطح پر سب سے بڑا واقعہ پہلی گلف وار تھی۔ جو کہ عراق اور امریکہ کی زیرقیادت اتحادی افواج کے درمیان لڑی گئی۔ عراق نے کویت پر دو اگست 1990 کو قبضہ کیا۔ مگر اس کے خلاف امریکی اور دیگر اتحادی افواج کا حملہ جنوری 1991 کے وسط میں ہوا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو پاکستانی قوم بھی تقسیم ہوگئی ۔ پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد کویت کو عراق کا 19 واں صوبہ بنائے جانے پر خوش تھی ۔ دنیا کی تاریخ میں شاید یہ پہلی جنگ تھی جس کو ٹی وی سکرین پر دیکھا گیا۔ اے پی پی ہیڈکوارٹرز میں ٹی وی سیٹس پر سی این این دیکھنا سب کا مشغلہ بن گیا تھا۔ جنوری میں ہی اسلام آباد میں کویت کے سفیر ابراہیم یاقوت نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں پریس کانفرنس کی۔ جس میں تمام زیر تربیت صحافیوں کو بھی جانے کا موقع ملا۔ سفیر کے ہمراہ ان کی اہلیہ بدریہ یاقوت بھی تھیں۔ پریس کانفرنس میں سفیر نے کویت پر حملے اور عراقی قبضے کے حوالے سے تفصیلاً بات کی۔ اور پاکستانی قوم سے کویت کی آزادی کے لئے اپیل کی۔ اس موقع پر پاکستانی صحافی ڈاکٹر یاسین رضوی کی حکومت عراق کے ظلم و ستم کے حوالے سے لکھی کتاب بھی تقسیم کی گئی جوکہ شاید ابھی بھی میرے پاس ہے۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ عراق میں ہونے والے ظلم کا انداز روسی خفیہ ایجنسی کے بی جی جیسا ہے۔ اسی پریس کانفرنس میں اسلام آباد میں جنگ کے صحافی حنیف خالد سے پہلی ملاقات ہوئی۔ حنیف خالد صاحب نے ٹی وی پر نظر آنے کے لئے ہمیشہ جدو جہد کی۔ اس کانفرنس میں بھی جب انہیں فرنٹ پر جگہ نہ ملی تو دو خاتون صحافیوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ پر ہی ٹک گئے۔ یہ انداز ہمارے جیسے آئیڈیلزم کے مارے لوگوں کے لئے نیا تھا۔ 28 سال سے زائد وقت گذرنے کے بعد بھی یہ منظر میرے ذہن سے محو نہیں ہوا۔ گلف وار چلتی رہی اور صدام نواز پاکستانیوں کے حوصلے بھی پست ہوتے گئے۔ بالآخر ان کو اندازہ ہوگیا کہ صرف بڑھکیں ہی کافی نہیں ہوتیں۔ جنگ کے لئے جذبہ اور جدید ہتھیار بھی ضروری ہوتے ہیں۔ ایک اور اہم یاد یکم جنوری 1991 کی ہے۔ جب انگریزی اخبار دی نیوز نے لانچ ہونا تھا۔ صبح سویرے ہی ہم ریفرنس سیکشن میں شریف کھٹانہ کے پاس آگئے اور نئے اخبار کا انتظار کرنے لگے۔ آخر دی نیوز کا پہلا ایڈیشن آہی گیا۔ ہر کسی نے بار بار اخبار کے مختلف صفحات کو دیکھا۔ یقیناً یہ دی نیشن اور مسلم سے بہتر تھا۔ ابھی بھی یہ ڈان سے بہت پیچھے تھا۔