لاہور سے شناسائی کیسے ہوئی
تحریر: محمد لقمان
قائداعظم یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم ایس سی کے بعد کبھی بھی صحافت بطور پیشہ میری پہلی ترجیح نہیں رہی تھی۔ اور نہ لاہور میں مستقل قیام کا سوچا تھا۔ اے پی پی لاہور بیورو میں آیا تو کئی سال ایک کشمکش کا شکار رہا کہ لاہور میں رہوں یا اسلام آباد واپس چلا جاوں۔ مگر بیمار ماں سے ملنے کے لئے اسلام آباد سے فیصل آباد ہر ہفتے جانا ممکن نہیں تھا۔ جبکہ لاہور سے ہر روز بھی جایا جاسکتا تھا۔ اے پی پی لاہور میں جوائننگ کے بعد میں تقریباً تین روز تو ہر روز فیصل آباد سے آتا اور واپس جاتا رہا۔ مگر چوتھے روز مجھے خیال آیا کہ پندرہ سو روپے کے ماہانہ وظیفے کے ساتھ ایسا ممکن نہیں۔ میرے میٹرک اور ایف ایس سی کے کلاس فیلو اظہر منیر ان دنوں علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس فائنل میں تھے۔ ان کے پاس گیا اور تقریباً دو ہفتے ہوسٹل میں ان کے ساتھ رہتا رہا۔ ہر روز 33 نمبر ویگن میں چائنہ چوک سے جناح ہسپتال جاتا رہا اور واپس آتا۔ اس دوران میں میں نے اسلام پورہ اور سنت نگر کے سنگم پر واقع ایک بیچلر ہاسٹل ڈھونڈ لیا۔ ابدالی چوک میں سید ھاسٹل میں چھ سو روپے مہینے پر ایک کمرہ مل گیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد علی عمران بھی میرے ساتھ آگئے یوں مہینے کا رہائشی خرچہ کم ہو کر چار پانچ سو روپے مہینے تک رہ گیا۔ اسلام پورہ سے وہ انس اور دوستی جنوری 2019 تک جاری رہی جب میں واپڈا ٹاون کے سامنے پی آئی اے ہاوسنگ سوسائٹی میں منتقل ہوا۔
لاہور میں پہلی مرتبہ 1975 میں اپنے ابا جی کے ساتھ آیا تھا۔ اس وقت پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ کاروبار کے سلسلے میں وہ لاہور آئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو چلا۔ ہم نے مال روڈ پر چلنے والی ڈبل ڈیکر پر سفر کیا۔ بس کی اوپری منزل پر بیٹھ کر سفر کرنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ ہم لاہور کے چڑیا گھر کے علاوہ اندرون شہر دلی دوازے بھی گئے۔ چار دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد بھی ساری یادیں ابھی بھی تازہ ہیں۔ انیس سو اسی کی دہائی میں یونیورسٹی کے دور اور ملازمت کے لئے انٹرویو کے لئے درجنوں مرتبہ لاہور آیا مگر ایک دو دن سے زائد نہیں ٹھہرا۔ مگر اب حالات طویل مدت کے لئے لاہور لے آئے تھے۔ اس لیے لاہور شہر کو بہت قریب سے جاننا ضروری تھا۔ سب سے پہلی منزل تو اے پی پی کے دفتر کے عین سامنے واقع لارنس گارڈن یا باغ جناح تھا۔ لارنس روڈ والے گیٹ سے داخل ہوں تو باغ کے بیچوں بیچوں گذرنے والی سڑک آپ کو قائداعظم لائبریری تک لے جاتی ہے۔ باغ جناح کے اردگرد بنا ہوا جاگنگ ٹریک دو کلومیٹر کے قریب ہے۔ سپورٹس رپورٹر سہیل علی اورسینیر سب ایڈیٹر افتخار علوی کے ساتھ پہلی مرتبہ شام کو باغ جناح سیر کے لئے گیا تو وہاں کی فضا میں عجب تازگی محسوس کی۔ باغ جناح جانے کی عادت ایسی بنی کہ 2007 میں اے پی پی سے ریٹائرمنٹ لینے تک وہاں جاتا رہا۔ تازہ فضا میں جانے سے ان سترہ سالوں میں صحت کے بہت کم مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔مرحوم ظہورالدین بٹ کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں جانے کا موقع ملا۔ ایجوکیشن رپورٹر نے بھی لاہورشناسی میں بڑی مدد کی۔ یوں اپنی بیٹس کو جاننے سے پہلے لاہور شہر کو جاننے کا بھرپور موقع مل گیا تھا۔