سائنس اور ٹیکنالوجی کی صحافت
تحریر: محمد لقمان
1991کے بلدیاتی انتخابات کا عمل شروع ہوا تو مجھے کاغذات نامزدگی کے جمع کرانے سے نتائج تک کی کوریج کی پوری ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اس کے لئے لاہور کے اس وقت کے پوش علاقے شادمان میں واقع پنجاب لوکل کونسلز الیکشن اتھارٹی کے دفتر تقریباً روزانہ جانا پڑتا۔پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لئے مقرر الیکشن کمشنر جسٹس شیخ اعجاز نثار سے بھی کئی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ انتخابات کے کاغذات نامزدگی کے جمع کرنے کی کوریج کے لئے ضلع کچہری اور سیشن کورٹ میں میں بھی جاتا رہا۔ ان الیکشن میں چونکہ اے پی پی کی طرف سے اچھی کوریج ہوگئی تھی۔ اس لیے اس کے بعد 1993 سے 2002 تک جتنے بھی بلدیاتی، قومی یا ضمنی الیکشن ہوئے ۔ اس میں میں ہمیشہ الیکشن سیل کا حصہ رہا۔ اس کے لئے کئی مرتبہ اسلام آباد بھی جانا پڑتا رہا۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی رپورٹنگ کیسے شروع کی۔ اس کا بھی ایک الگ قصہ ہے۔ 1991 کے ستمبر میں تھامسن فاونڈیشن نے اسلام آباد میں ہفتہ بھر کی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ورکشاپ کا انعقاد کیا تو اے پی پی نے پاکستان بھر میں بکھرے ہوئے 1990 بیچ کے رپورٹرز کو اس کے لئے نامزد کردیا۔ اسلام آباد گئے تو ٹریننگ کا دور یاد آگیا۔ ہوٹل میں سامان رکھنے کے بعد ہیڈ آفس گئے ۔ سب دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ اگلے دن ورکشاپ میں شرکت کے لئے ہوٹل میں گئے تو وہاں لاطینی امریکہ کے ملک برٹش گیانا سے تعلق رکھنے والے عمر ستور سے ملاقات ہوئی۔ وہ پاکستانی صحافیوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی رپورٹنگ میں ٹریننگ کےلئے بطور ماسٹر ٹرینرآئے تھے۔ سانولے سلونے عمر ستور کے علاوہ پاکستان سائنس فاونڈیش کے حکام ، پی سی ایس آئی آر لیبارٹریز لاہور سے ڈاکٹر محمد اشرف اور کراچی سے ایک سائنس میگزین کے چیف ایڈیٹر کو بھی بلایا گیا تھا۔ ٹیکنیکل مواد کو نان ٹیکنیکل خبر میں کیسے بدلا جائے۔ ٹریننگ ورکشاپ کا یہی مقصد تھا۔ ٹریننگ کے شرکا میں بہت کم صحافی تھے۔ جن کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی شد بد تھی۔ میرے اور ذیشان حیدر کے علاوہ باقی لوگوں نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں بھی سائنس نہیں پڑھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عمر ستور کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر میں اپنے صحافتی کیریر میں اس ورکشاپ کی اہمیت کو دیکھوں تو بعد میں میری سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ بائیو ٹیکنالوجی اور زرعی تحقیق میں دلچسپی بڑھانے میں اس پروگرام کا بہت عمل دخل تھا۔ اسی ورکشاپ کی وجہ سے صحت کے شعبے کو کور کرنے میں بھی بڑی سہولت ملی۔ اس ورکشاپ میں پی سی ایس آئی آر کے سائنسدان ڈاکٹر محمد اشرف سے ایسا تعلق بنا کہ اب تک ان سے ملاقات ہوتی ہی رہتی ہے۔ پی سی ایس آئی آر سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایف سی کالج میں آئے اور اب شائد وہ گھر پر ہی زندگی گذار رہے ہیں۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی خصوصاً کیمسٹری سے اتنی محبت کرنے والا شخص مجھے زندگی میں کہیں اور نہیں ملا۔