تاريخ کا تباہ کن زلزلہ۔۔ چودہ سال بيت گئے

0
3212

تحرير محمد لقمان

آزاد کشمير کي خوبصورت وادي ليپا کا رہنے والا دلپذير اعوان کبھي بھي آٹھ اکتوبر 2005 کے دن کو نہيں بھلا سکتا۔ وہ مظفر آباد ميں اس دن صبح سويرے اپني تنخواہ نکلوانے بينک کي طرف رواں دواں تھا۔ کہ اچانک اس کے جسم کو جھٹکا سا لگا۔ زمين تھر تھرانے لگي۔ کسي سائنس فکشن فلم کے مناظر کي طرح اچانک ارد گرد کي عمارتيں زمين ميں دھنسنے لگيں۔ يوں اکيسويں صدي کے ايک بڑے زلزلے کي وجہ سے آزاد کشمير کے دارالحکومت کا ايک بڑا حصہ تباہ ہوچکا تھا۔ آٹھ اکتوبر کي صبح سويرے ٹي وي کي رپورٹس کے مطابق صرف اسلام آباد ميں ايک عمارت مرگلہ ٹاور گري تھي۔ ليکن جوں جوں وقت گذرتا گيا۔تباہي کي داستانيں عام ہونے لگيں۔ دو تين روز کے بعد اہل پاکستان کو پتہ چلا کہ ريکٹر سکيل پر 7.6 ڈگري والے زلزلے کي وجہ سے آزاد کشمير اور خيبر پختون خوا ميں 83 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ دو شہر مظفر آباد اور بالاکوٹ تو مکمل طور پر صفحہ ہستي سے مٹ گئے تھے۔ تباہي کے بعد ريليف کا کام شروع ہوا تو اربوں ڈالرز کي غير ملکي امداد آئي۔۔اور مظفر آباد اور بالاکوٹ کو دور بسانے کا فيصلہ کيا گيا۔ بعد ميں مظفر آباد کو کہيں اور بسانے کا ارادہ تو تبديل ہوگيا۔ مگر بالاکوٹ کو 20 کلوميٹر دور ايک نئي جگہ پر منتقل کرنے کا فيصلہ کيا گيا۔ مگرچودہ سال گذرنے کے بعد بھي نيا شہر بسانے کا خواب پورا نہيں ہوا۔ اسي طرح زلزلے کي صورت ميں ملبے سے اموات کو روکنے کے لئے عمارتوں کے طرز تعمير اور خام مال ميں تبديلي کي بہت بات کي گئي۔ مگر ابھي تک ان احتياطي تدابير پر عمل درآمد کم ہي نظر آتا ہے۔ ماہرين ارضيات کے مطابق اسلام آباد سميت پاکستان کے بيشتر بالائي علاقے فالٹ لائنز پر موجود ہيں۔ جہاں کسي بھي وقت بڑا زلزلہ آسکتا ہے ۔اس کی مثال 24 ستمبر کو میرپور آزاد کشمیر میں آنے والا زلزلہ  ہے جس میں میں چالیس  سے زائد  افراد جاں بحق ہوئے۔ متعدد  سڑکیں زمین میں دھنس  گئِں۔ پاکستان  کا دوسرابڑا ڈیم منگلا  بھی 5٫8  کی شدت سے آنے والے  جھٹکوں  سے بال بال بچا۔ اس  سے  پہلے بھی  26 اکتوبر2015کو زلزلہ آیا۔ جسي کي شدت آٹھ اعشاريہ ايک تھي۔ اس کي وجہ سے سے پنجاب، خيبر پختون خوا اور کشمير ميں سينکڑوں ہلاکتيں ہوئيں اور ہزاروں مکانات مکمل يا جزوي طور پر تباہ ہوئے۔زلزلے کي شدت اتني زيادہ تھي کہ لاہور کي متعدد عمارتوں ميں دراڑِيں پڑ گئيں۔ اس زلزلے کے بعد ايک ماہ کے دوران کم و بيش 200 چھوٹے زلزلے اور آفٹرشاکس آئے۔ اس کے بعد بھی ملک کے بالائی علاقوں خصوصاً کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختون خوا اور پنجاب میں بھی کئی زلزلے آچکے ہیں۔ محکمہ موسميات کےسابق سربراہ ڈاکٹر غلام رسول چوہدري کے مطابق حاليہ دنوں ميں تو زلزلوں کي تعداد بڑھتي ہي جارہي ہے۔آنے والے دنوں ميں مزيد بڑي شدت والے زلزلے آسکتے ہيں۔ بحيرہ عرب ميں ساحل مکران کے قريب سونامي بھي آسکتا ہے۔ جس سے پاکستان اور اومان کے کئي علاقے خطرے ميں ہيں۔ پہلے80 في صد سے زائد زلزلوں کا آغاز کوہ ہندوکش کے سلسلے سے ہوتا تھا۔۔ليکن اب زلزلے کے نئے مراکز ہزارہ اور کشمير ميں بھي پيدا ہونے شروع ہوگئے ہيں۔ زلزلے تو آتے ہي رہيں گے۔ اصل مسئلہ يہ ہے کہ اس سے ہونے والي تباہ کاريوں کو کيسے روکا جائے۔ اس وقت کراچي ، لاہور اور اسلام آباد ميں پاکستان کے بڑے شہروں ميں آسمان سے باتيں کرتي بلند و بالا عمارتيں عام ہيں۔ جن کي تعمير ميں کنکريٹ اور شيشے کا بہت زيادہ استعمال ہوتا ہے۔ زلزلے کي صورت ميں يہي عمارتي مٹيريل مکينوں کي موت کا سبب بن جاتا ہے۔ جاپان ، اٹلي اور ديگر ممالک جہاں زلزلے آتے ہي رہتے ہيں۔ وہاں اس کا حل موزوں تعميراتي ٹيکنالوجي اور مٹيريل کے استعمال سے نکالا گيا ہے۔جاپان اور میکسیکو ميں اکثر عمارتوں ميں ايسا تعميراتي مٹيريل استعمال ہوتاہے کہ وہ زلزلے کے دوران سانپ کي طرح لہراتي تو رہتي ہيں مگر گرتي نہيں۔ پاکستان ميں بھي اگر کنکريٹ کي بجائے ہلکے وزن کا تعميراتي خام مال استعمال کيا جائے توزلزلے کي صورت ميں عمارتوں تو گريں گي۔ مگر انساني جانوں کا ضياع بہت کم ہوگا۔ اس کے لئے ضروري ہے کہ ہر حادثے کے بعد ٹي وي چينلز پر گفت و شنيد کرنے کي بجائے واقعات سے پہلے ہي احتياطي تدابير کو عام کيا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here