الوداع عثمان حمید

0
1244

تحریر: محمد لقمان

ایک عجب پت جھڑ کا موسم ہے۔ بڑے قابل اور روشن دماغ افراد یکے بعد دیگرے رخصت ہو رہے ہیں۔ نو اپریل کی صبح ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) سے طویل عرصہ تک منسلک رہنے والے صحافی عثمان حمید خان کی موت کی خبر سنی تو دل جیسے مٹھی میں آگیا۔ یقین نہیں آیا تو مختلف دوستوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اس خبر کی تصدیق کی۔ عثمان صاحب سے نومبر انیس سو نوے میں اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ اس وقت میں اے پی پی میں بطور ٹرینی جرنلسٹ آیا تھا۔ ہمارا بائیس رکنی بیچ جب پہلے دن سپر مارکیٹ کے پاس اے پی پی ھیڈ کوارٹر ز میں آیا تو نیوز روم میں زبیر احمد خان، جلال الدین اور سلمان ہدایت کے علاوہ جس شخص سے ملاقات ہوئی وہ عثمان حمید خان تھے۔ اپنے صاف رنگ اور شلوار قمیض میں ملبوس ہونے کی وجہ سے پہلی نظر میں تو پشتون لگے۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ واہ کینٹ کے رہنے والے ہیں۔ اس وقت چالیس برس کے لگ بھگ ان کی عمر تھی۔ بڑا مسکراتا چہرہ۔ تین ماہ اسلام آباد میں ٹریننگ جاری رہی۔ ہر روز شام کو ان سے ملاقات ہوتی تو خبر لکھنے کے بارے میں کوئی نہ کوئی نئی چیز سیکھنے کو ملتی۔ کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صحافت کے بارے میں بتاتے تو کبھی ضیا الحق کی آمریت کے دور کی پابندیوں پر بحث ہوتی۔ ان کے ایک بھائی سمیت خاندان کے کئی افراد افواج پاکستان میں تھے۔ مگر انہوں نے اپنی ترقی کے لئے ان زینوں کو کبھی استعمال نہیں کیا۔ ہمیشہ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کی بات کی۔ کئی بار بحث میں بہت زیادہ تلخی بھی آجاتی تو اگلے روز بالکل معمول کے مطابق ملتے۔ ایڈیٹنگ میں ید طولی حاصل تھا۔ گرامر ہو یا ذخیرہ الفاظ کا مسئلہ، مشکل کے وقت ہر کوئی عثمان حمید کی طرف دیکھتا تھا۔ غالباً انہوں نے انیس سو ستر کی دہائی کے وسط میں اے پی پی میں نوکری حاصل کی تھی۔ انیس سو ستتر کے عام انتخابات کی کوریج کی۔ پینتیس سال صحافت کے خار زاروں میں رہنے کے بعد تقریباً دو ہزار دس میں وہ ریٹائر ہوگئے۔ اپنی قابلیت کی وجہ سے انہیں ہمیشہ اے پی پی کی مینجمنٹ کا اعتماد حاصل رہا۔ پتہ نہیں کیا وجہ تھی کہ انہوں نے ساری عمر شاد ی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے بہن بھائیوں کی نسبت اپنے دفتر کے ساتھیوں سے زیادہ پیار کیا۔ راولپنڈی میں مری روڈ کے ایک ہوٹل میں انہوں نے کئی دہائیوں تک رہائش رکھی۔ جب ہم لوگ ٹریننگ کے بعد دیگر شہروں میں تعینات ہوگئے تو تب بھی ان سے رابطہ رہا۔ جب بھی اسلام آباد کسی کورریج کے لئے جاتے تو بڑے تپاک سے ملتے اور شام کا کھانا کھلائے بغیر نہ جانے دیتے۔ یہ کھانا صرف مہمانوں کے لئے نہیں ہوتا تھا۔ مگر جو بھی نیوز روم میں ہوتا اسے لنگر عثمانیہ میں دعوت عام ہوتی تھی۔ جو کھانے سے انکار کرتا تھا۔ اس سے ناراض ہو جاتے۔ بڑی عجب بات ہے کہ دفتروں میں لوگوں کے درمیان کئی مرتبہ مستقل ناراضگی ہو جاتی ہے۔ مگر عثمان صاحب کے ساتھ کوئی مستقل ناراض نہیں رہ سکتا تھا۔ صرف چند گھنٹے گذرتے تو خود ہی اسے منا لیتے۔ ان کی موت کی خبر کے بعد بھی یقین نہیں آتا کہ وہ دنیا سے چلے گئے ہیں۔ ابھی بھی لگتا ہے کہ جب بھی اے پی پی ہیڈکوارٹر جائیں گے تو ایک مسکراتا ہوا چہرہ ہمارا استقبال کرے گا۔ اللہ تعالی اس مرد درویش کو اعلی مقامات سے نوازے۔ آمین۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here