سفر جنوب کے۔۔۔۔قسط چار

0
1982

چاول کی ہائبرڈ اقسام۔۔۔ایک انقلاب
تحریر: محمد لقمان
دنیا میں جوں جوں آبادی بڑھی تو خوراک کی دستیابی کے لئے کوششوں میں بھی تیزی آگئی۔ انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں زرعی سائنسدان نارمن بورلاگ کی ریسرچ سے سبز انقلاب آیا اور میکسیکو کے ادارے سمٹ نے گندم کی ایسی اقسام تیار کیں۔ جو روائتی گندم کی اقسام سے بہت پہلے پک جاتی تھیں اور ان کی فی ایکڑ پیداوار بھی بہت زیادہ تھی۔ پاکستان میں موٹے دانے والی وڈانک اور دیگر دیسی اقسام کی جگہ اب میکسی پاک نے لے لی تھی۔ پچھلے ساٹھ سالوں میں تو گندم کی ایسی ایسی اقسام تیار ہو چکی ہیں جو کہ نہ صرف ملک کی ضرورت پوری کرتی ہیں بلکہ ان کی فاضل پیداوار کو کئی مرتبہ برآمد بھی کیا جا چکا ہے۔ گندم کے علاوہ چاول کی فصل کی بھی نئی اقسام تیار کر لی گئی ہیں۔ ان میں ہائبرڈ اقسام کی موجودہ دور میں بہت اہمیت ہے۔ پاکستان میں تو یہ اقسام حال ہی میں متعارف کروائی گئی ہیں۔ مگر ان کی تیاری کے لئے تحقیق چین میں انیس سو چونسٹھ میں ہی شرو ع ہوگئی تھی۔ چین کے معروف زرعی سائنسدان یوان لونگ پنگ جن کو بابائے ہائبرڈ رائس سمجھا جاتا ہے، انیس سو چھہتر میں ھائبرڈ چاول کی ایسی اقسام تیار کرچکے تھے جنہوں نے بعد میں دنیا بھر میں بھوک کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فلپائن میں چاول کی فصل پر تحقیق کرنے والے بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سائنسدان ڈاکٹر گوردیو سنگھ خوش نے بھی بعد میں ہائبرڈ رائس کو دنیا بھر میں متعارف کروانے میں ساتھ دیا۔ مگر یہ اقسام پاکستان میں بہت دیر کے بعد آئیں۔ ایک نجی ادارے گارڈ رائس اور چین کی کمپنی لونگ پنگ نے مل کر سندھ کی آب و ہوا سے مطابقت رکھنے والی کئی اقسام تیار کیں جن کی آج کل کاشت سندھ کے علاوہ جنوبی پنجاب میں بھی کامیابی سے جاری ہے۔ ان اقسام کی پیداوار روائتی اقسام کی نسبت تین گنا ہے۔ گولارچی اور بدین کے دیگر علاقوں میں کسان کی خوشحالی بھی موٹے چاول کی جدید اقسام کی وجہ سے آئی ہے۔ ایک ترقی پسند کاشتکار ماما عبدالستار سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہائبرڈ اقسام پانی کی کمی کے باوجود بہت اچھی پیداوار دے رہی ہیں۔ گونی کینال میں پانی صرف چھ ماہ کے لئے آتا ہے۔ مگر یہ کسان کسی نہ کسی طرح چاول کی فصل کے لئے پانی کی ضرورت پوری کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گولارچی کے نواحی گاوں چک اٹھاون میں پکے مکان بن چکے ہیں اور گھروں میں ٹی وی سمیت جدید دور کی تمام سہولیات موجود ہیں۔ گارڈ ایگریکلچر کمپنی کے سینیر ڈائریکٹر مومن علی ملک تو سندھ میں ھائبر ڈ رائس کی کامیابی پر بہت خوش تھے۔ مگر ان کو شکوہ تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تحقیق کے معاملے میں زیادہ تعاون نہیں کرتیں۔ اگر حکومت فیلڈ ٹرائلز میں آسانی پیدا کرتے تو پاکستان کے دیگر علاقوں کے لئے موٹے چاول کی نئی اقسام تیار کی جاسکتی ہیں۔ تاہم باسمتی کی ہائبرڈ اقسام میں ان کو فوری طور پر کامیابی نظر نہیں آ رہی۔ تقریب کے دوران جب ماما عبدالستار سمیت متعدد کسانوں کو اردو کے علاوہ سندھی اور پنجابی بھی فر فر بولتے دیکھے تو بڑی حیرانی ہوئی۔ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے آباو اجداد کم و بیش ایک صدی پہلے پنجاب کے مختلف علاقوں خصوصاً لائلپور (فیصل آباد) سے نقل مکانی کرکے سندھ کے مختلف اضلاع میں آباد ہوگئے تھے۔ چونکہ انہوں نے سندھ کی بنجر زمینوں کو زیر کاشت لاکر آباد کیا تھا۔ اس لیے ان کو مقامی لوگ آباد کار کہتے ہیں۔
(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here