خارزار صحافت۔۔۔۔قسط بائیس

0
2806

کچھ بات تریموں اور اٹھارہ ہزاری کی

تحریر: محمد لقمان

1992کا سیلاب زیادہ تر پاکستان کے مغربی دریاوں ۔۔۔جہلم اور چناب میں آیا۔۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں  پانی کے ریلے اتنے طاقتور تھے کہ پنجاب کے شہر جھنگ سے تقریباً 25 کلومیٹر دور دریائے چناب پر واقع تریموں ہیڈ ورکس کا ڈھانچہ ہی خطرے میں پڑ گیا۔ محکمہ موسمیات اور آبپاشی کے محکمے کے حکام بڑے پریشان تھے کہ پانی کا جتنا بہاو ہے کیا تریموں ہیڈ ورکس سے سلامتی سے گذر جائے گا یا نہیں۔  ہیڈورکس سے 6 لاکھ 40 ہزار کیوسک پانی گذرنے کی گنجائش تھی۔ مگر پانی کا ریلہ 8 لاکھ کیوسک سے زائد تھا۔ بہر حال قریبی گاوں اٹھارہ ہزاری کے  قریب بند کو توڑا گیا ۔ جس کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ  کیوسک سے زائد پانی ہزاروں ایکڑ پر پھیل گیا۔ کئی آبادیاں متاثر ہوئیں۔ مگر یئڈورکس بچ گیا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ جھنگ شہر اور ہیڈورکس کو بچانے کے لئے اٹھارہ ہزاری کے لوگوں کو قربانی دینی پڑی ۔ مجھے رات کے گیارہ بجے کے قریب محکمہ موسمیات کے فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن سے پانی کے ریلے کے گذرنے کی اطلاع ملی جس کو میں نے خبر کے قالب میں ڈھالا۔ اے پی پی نے خبر جاری ہوئی تو اگلی صبح وہ انگریزی اخبار ڈان کی لیڈ تھی۔  میرے لیے یقیناً ایک اعزاز کی بات تھی۔ اگلی صبح بیورو چیف سلیم بیگ صاحب نے اس خبر کی تعریف کی۔ سیلاب کے ریلے گذرے تو مجھے اور مسرت حسین کو تباہ کاریوں کی کوریج کے لئے سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژن بھیج دیا گیا۔ میری پہلی منزل اٹھارہ ہزاری کا گاوں تھا۔ لاہور سے فیصل آباد ہوتے ہوئے جھنگ پہنچا ۔ وہاں سے اٹھارہ ہزاری کے لئے انتہائی تھکی ہوئی بس سے روانہ ہوگیا۔ گاوں پہنچا تو وہاں  اتفاق سے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی غضنفر جبوآنہ آئے ہوئے تھے۔ سیلاب زدگان میں امدادی سامان کی تقسیم ہوئی۔ مگر جونہی ایم پی اے وہاں سے روانہ ہوئے تو متاثرین سے آٹے کے تھیلے اور دیگر سامان واپس لے لیا گیا۔ گویا کہ سرکار کو ماموں بنانے کے عمل کی کئی دہائی پرانی تاریخ ہے۔ اٹھارہ ہزاری کے گاوں میں شاید ہی کوئی شخص ہو جس کی 1992 کے سیلاب کی وجہ سے فصل یا گھر زیر آب نہ آیا ہو۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اور ابھی تک لوگوں کے افسردہ چہروں کی یادیں میرے ذہن میں موجود ہیں۔ جب جھنگ کی کوریج کے بعد لاہور واپس آیا تو سرگودھا جانے کا پلان بھی بن چکا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here