خارزار صحافت۔۔۔۔قسط اٹھارہ

0
2666

 

بلدیاتی نظام۔۔۔جمہوریت کی نرسری

تحریر: محمد لقمان

انیس سو اکیانوے میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے اور بعد میں ٹاون ہال میں ہونے والے لاہور میونسپل کارپوریشن کے اجلاس بڑے ہنگامہ خیز ثابت ہوئے۔ لارڈ مئیر کی زیر صدارت اجلاس کی کاروائی میں سے صرف ہنگامے کی خبریں ہی اگلے دن اخبارات کی زینت بنتیں۔ مگر اس کے باوجود بھی بلدیاتی ادارے پارلیمنٹ کے لئے کسی نرسری سے کم نہیں تھے۔ اسی میونسپل کارپوریشن لاہور نے پنجاب کو میاں اظہر کی شکل میں ایک گورنر دیا۔ لاہور کارپوریشن کے میئر میاں محمد اظہر کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے پنجاب کا گورنر مقرر کیا تو خواجہ ریاض محمود نئے لارڈ مئیر بن گئے۔ میاں اظہر کے مقابلے میں خواجہ ریاض محمود کا انداز کافی حد تک تھڑے بازوں والا تھا۔ اس کے باوجود ان کا میڈیا کے ساتھ رویہ بہت اچھا تھا۔ مگر اپوزیشن کے ساتھ ان کا رویہ کچھ زیادہ سمجھدارانہ نہیں رہا۔ یہی وجہ تھی کہ اجلاس کے دوران کئی مرتبہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے ارکان کے درمیان ہاتھا پائی کی نوبت بھی آجاتی۔ اس وقت کے کونسلرز میں قاف لیگ کے سابق سینٹر کامل علی آغا، پنجاب کی سابق وزیر سوشل ویلفیر نسیم لودھی، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، سابق ایم پی اے صبا صادق  کے علاوہ بھی بعد میں ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہونے والے کئی افراد شامل تے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان ہونے والی دھینگا مشتی کو ایوان کے ایک حصے میں قائم پریس گیلری میں بیٹھے صحافی بطور مبصر دیکھتے تھے۔ مگر ایک ایسا واقعہ ہوا جس میں صحافی بھی ایک تنازعے کا حصہ بن گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک انگریزی اخبار کے صحافی جو کہ  متعدد شادیاں کرنے اور بعد میں طلاق دینے کے لئے بہت بدنام تھے،  نے ایک رقعہ ایک خاتون کونسلر کی طرف پھینکا۔ یہ رقعہ اس خاتون تک تو نہ پہنچا مگر مرد کونسلرز کے ہاتھ لگ گیا۔ جنہوں نے آو دیکھا نہ تاو صحافیوں کی گیلری پر حملہ کردیا۔ صحافیوں اور کونسلرز کے درمیان باقاعدہ مکے بازی ہوئی۔ ایک مکہ میرے چہرے کے قریب سے ہوتا ہوتا ایک دوسرے صحافی کو لگا۔ مگر انگریزی اخبار فرنٹیر پوسٹ  کے جمعے کو شائع ہونے والے میگزین کے سرورق پر جھگڑے کے بارے شائع ہونے والی تصویر میں ایسے لگا جیسے مکہ میرے منہ پر لگا ہے۔ مجھے اسلام آباد میں اے پی پی کے ڈائریکٹر نیوز ایم آفتاب کا فون آیا ۔ انہوں نے خیریت پوچھی۔ جب بتایا کہ تصویر میں ایسا محسوس ہوا تھا۔ مگر حقیقت میں بچت رہی ہے۔ اس پر وہ بہت خوش رہے۔ قصہ مختصر، ان ہنگامہ خیز اجلاسوں کی وجہ سے سیاست میں نئے آنے والوں کو بجٹ بنانے اور سیاست کرنے کے نئے نئے گر سمجھنے کا موقع ملا۔ اس دور میں جب کے ضیا الحق کٍی حکومت کو ختم ہوئے ابھی دو تین سال ہی گذرے تھے۔ کونسلرز کو جمہوری دور میں اپنی بات کہنے کا پورا موقع ملتا تھا۔ خصوصاً پی پی پی کے کونسلرز جن کو حکومت کو ختم ہوئے سال چھ ماہ ہی گذرے تھے، ان کے جذبات بہت دیدنی ہوتے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here