خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو چھبیس

0
536


سرزمین حجاز روانگی

تحریر: محمد لقمان

بالآخر نو جون دو ہزار تین کا دن آ ہی گیا۔۔ رات آٹھ بجے پی آئی اے کی لاہور ۔جدہ فلایئٹ تھی۔۔۔چھ بجے کے قریب علامہ اقبال ایرپورٹ پہنچ گیئے۔۔۔رخصت کرنے کے لیئے فیصل آباد سے بڑے بھائی ڈاکٹر احسان الہی اور خاندان کے دیگر افراد ہمراہ تھے۔ بیٹی کو ننھیال بھیج دیا تھا۔ شیر خوار بیٹا عبیدالحنان ساتھ تھا۔ ؎ ایرپورٹ پر الائیڈ بینک کی طرف سے آسان عمرہ سکیم کے منتظمین پہلے ہی موجود تھے۔ ایک گروپ فوٹو ہوا۔ ہماری دستاویزات انہوں نے ہمارے حوالے کیں۔ سات بجے سے کچھ دیر پہلے چیک ان شروع ہوا۔۔ پی آئی اے کے کاونٹر سے بورڈنگ کارڈز ملے اور مختلف ایجنسیوں کے کاونٹرز سے گذرتے ہوئے جب ڈیپارچر لاونج پہنچے تو ساڑھے سات بج چکے تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ایرپورٹ پر ہی احرام باندھ لیے جائیں۔ فلائٹ کی اناونسمنٹ سے پہلے ہم احرام بدل کر دوبارہ لاونج میں اپنی سیٹوں پر واپس آچکے تھے۔ ایک عجب احساس تھا کہ اللہ کے گھر جانے کی دیرینہ خواہش پوری ہونے جارہی تھی۔ جونہی جہاز میں پہنچے تو پتہ چلا کہ سواریوں میں معتمرین کی تعداد بہت کم تھی۔ زیادہ تر لوگ پاکستان میں چھٹیاں منانے کے بعد دوبارہ سعودی عرب جا رہے تھے۔ ہماری کوشش تھی کہ ہم زیادہ سے زیادہ ذکر الہی کریں مگر باقی لو گ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بہر حال چار گھنٹے کے سفر کے بعد جدہ کے ایرپورٹ پر اترے۔ جدہ کا ایرپورٹ کا ماحول کسی ترقی پذیر ملک کے ایرپورٹ کا تھا۔ امیگریشن لاونج میں آئے تو چہروں پر ماسک لگائے سعودی اہلکاروں نے استقبال کیا۔ پتہ چلا کہ سارس ( سیویر ایکیوٹ ریسپیریٹری سنڈروم) نامی سانس کی بیماری دنیا میں وبا کی طرح پھیل گئی تھی۔ مگر ہم پاکستانیوں کو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ پاسپورٹ کاونٹر پر آئے تو تھوڑی دیر بعد ہی سعودی امیگریشن آفیسر آرام کے لئے اٹھ گئے ۔ قطار میں لگے تمام پاکستانیوں کو ایک اور قطار میں بھیج دیا گیا جو پہلے ہی کافی طویل تھی۔ بالآخر باری آئی تو پاسپورٹ آفیسر کے حوالے کیے۔ اس زمانے میں بچوں کا الگ پاسپورٹ نہیں ہوتا تھا۔ ماں کے پاسپورٹ پر ہی بچوں کا اندراج اور تصویر ہوتی تھی۔ عبیدالحنان کا نام سامنے آیا تو نوجوان سعودی امیگریشن آفیسر نے کہا کہ بنتی۔۔۔یعنی کیا یہ بیٹی ہے۔۔۔میں نے جواب دیا کہ ولد۔۔۔یعنی بیٹا۔ وہ بار بار بنتی کہتا رہا اور میں جواباً ولد بتاتا رہا۔ بالآخر میں نے شلوار کرتے میں ملبوس اپنے دو سال سے بھی کم عمر بیٹے کو کاونٹر پر کھڑا کردیا۔۔۔ تو وہ مطمئن ہوگیا۔۔۔ بعد میں پتہ چلا کہ عرب دنیا میں حنان عورتوں کے نام بھی ہوتے ہیں۔ اس کی مثال فلسطین کی وزیر خارجہ حنان العشروی تھی۔ ایرپورٹ سے سامان لے کر باہر نکلے تو باہر الائیڈ بینک کے عمرہ ٹور آپریٹر کی کرائے پر لی گئی گاڑیاں موجود تھیں۔ تھوڑی دیر بعد گاڑیاں مکہ کی طرف چل پڑیں تھیں۔ تقریباً تین گھنٹے کے سفر کے بعد مکہ کی حدود میں داخل ہوئے تو ہر طرف بلند و بالا عمارتیں تھیں۔ چونکہ صبح کے تقریباً چار بج چکے تھے۔ اس لیے ہر طرف سکوت کا عالم تھا۔ گاڑیوں نے ہوٹل پر اتاارا ۔ کمروں میں سامان رکھا اور مسجد الحرام کی طرف چل پڑے۔ فندق الشہدا اور پتہ نہیں کون کون سے ہوٹل راستے میں آئے۔ مسجد الحرام کا بیرونی چار دیواری نظر آنا شروع ہوگئی۔ فجر کا وقت ہونے کو تھا۔ طے یہ ہوا کہ پہلے نماز فجر ادا کریں گے۔ اس کے بعد ہی عمرہ ادا کریں گے۔
(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here